بھارت میں شیروں کی آبادی میں تیس فیصد اضافہ

Tigers India

Tigers India

وزیر ماحولیات پرکاش جواداکار نے اپنے بیان میں ملک میں ان جنگلی جانوروں کی تعداد میں اضافے کو ’ایک بڑی کامیابی‘ کہا ہے۔

تعداد کے اعتبار سے دنیا میں سب سے زیادہ وائلڈ ٹائیگرز بھارت میں پائے جاتے ہیں۔ منگل کے روز بتایا گیا ہے کہ بھارت میں اس جنگلی جانور کی تعداد میں نہایت تیزی کے ساتھ 30 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

قدرتی وسائل کے تحفظ کے سرگرم عناصر کے لیے یہ خوش آئند خبر ہے۔ نئی دہلی حکام نے منگل کو ایک تازہ جانور شماری کے حوالے سے بتایا ہے کہ گزشتہ برس بھارت میں 2,226 شیر موجود تھے جب کہ اس کے مقابلے میں 2010 ء بھارت میں چیتوں کی تعداد 1,706 تھی۔

وزیر ماحولیات پرکاش جواداکار نے اپنے بیان میں ملک میں ان جنگلی جانوروں کی تعداد میں اضافے کو ’ایک بڑی کامیابی‘ کہا ہے۔ خاص طور سے ایک ایسے وقت میں جب بھارت میں قدرتی جنگلات کی تباہی کے خطرات سے دوچار بڑی بلیوں کو شکاریوں اور اسمگلروں سے بچانے کے لئے جنگ کرنا پڑ رہی ہے۔

پراکاش جواداکار کے بقول، ’’دنیا بھر میں ایک طرف چیتوں کی آبادی کم ہو رہی ہے تو دوسری جانب بھارت میں ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ اعداد وشمار کے مقابلے میں ہمارے ہاں شیروں کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک بڑی کامیابی کی نشاندہی ہے۔‘‘

بھارتی وزیر نے اس ضمن میں ملکی انتظامیہ کا حوالہ دیا جو ملک کے مختلف حصوں میں پائے جانے والے 40 مختلف قسموں کے چیتوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہے۔ بھارت کے چیتوں کی یہ انواع شمالی مشرقی ریاست آسام سے لے کر مغربی ریاست راجھستان اور وسطی مھاراشٹرا میں پھیلی ہوئی ہیں۔

وزیرماحولیات پراکاش جواداکار کے مطابق حکومت شیروں کے انسانوں کے ساتھ خونی تصادم یا مقابلوں میں کمی لانے کے لیے ممکنہ اقدامات کر رہی ہے۔

کسان اور دیگر افراد جنگلی اراضی میں مسلسل دخل اندازی کرتے ہیں اور چیتے خوراک اور پانی کی تلاش میں دیگر علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

حکومت نے قریب 9,700 مخفی کیمرے شیروں کے مسکن علاقوں میں نصب کر رکھے ہیں، جو ہر وقت ان علاقوں میں پھرنے والے جانوروں کی تصاویر بناتے رہتے ہیں۔ حکومتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کمپیوٹر سافٹ ویئر کی مدد سے 70 فیصد شیروں کی تصاویر اتاری ہے اور ان کی انفرادی شناخت ہو گئی ہے۔

قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے سرگرم بلنڈا رائٹ نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں جو طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے، وہ سائنسی اعتبار سے بہت قوی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت میں غیر سرکاری تنظیموں، حکومتی اہلکاروں اور جانوروں کے سروے کے عمل میں شامل دیگر عناصر تین لاکھ اسکوائر کلو میٹر کے رقبے پر اپنی سرگرمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بھارت کی ’ وائلڈ لائف پروٹیکشن سوسائٹی‘ سے تعلق رکھنے والی بلنڈا رائٹ نے اے ایف پی ک ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ’’جنگلی جانوروں کے کوریڈورز کو چیتوں کے لیے محفوظ بنانا، اس وقت ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ زیادہ تر اراضی ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال میں لائی جا رہی ہے۔‘‘