تحریر: عبدالرزاق چودھری 11 نومبر 2015 کو لاہور حلقہ این اے 122 میں زندہ دلان لاہور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ یہ انتخابی دنگل حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک ایسے وقت میں سجا ہےجب بلدیاتی انتخاب کی آمد آمد ہے اور یہ معرکہ اس لیےبھی خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ دونوں جماعتوں کی سیاسی بقا اس الیکشن کی کامیابی سے مشروط ہے۔ دونوں جانب سے صف بندی ہو چکی ہے۔
ایک جانب سے کپتان بذات خود علیم خان کی حمایت میں نکل کھڑے ہوے ہیں اور طمطراق سے الیکشن مہم جاری و ساری رکھے ہوے ہیں گلی گلی ،کوچے کوچے عمران خان اور علیم خان کے فلیکسز اور بینرز کی برسات نظر آتی ہے۔پی ٹی آئی کے کارکن گھر گھر جا کر لوگوں کو ترغیب دے رہے ہیں اور اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور بالخصوص اس عمل میں پی ٹی آئی کی خواتین کارکن پیش پیش ہیں۔وہ ہر خاتوں خانہ سے فرد” فردا” ملاقات کر رہی ہیں اور ان کو پی ٹی آئی کو ووٹ دینے پر آمادہ کرنے کے لیے ایری چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔
اگر ایک طرف پی ٹی آئی الیکشن مہم کو گرمانے میں متحرک ہے تو دوسری جانب مسلم لیگ ن بھی اس میدان میں پیچھے نہیں ہے۔مسلم لیگ ن نے ضمنی انتخاب کے چیمپین حمزہ شہباز شریف کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ وہ عمران خان کے مقابلے پر ایاز صادق کی کمپین کی قیادت کریں اور وہ اپنے اس مشن پر عمل جاری رکھے ہوے ہیں جبکہ وفاقی وزرا خواجہ سعد رفیق ،عابد شیر علی،طلال چودھری اور ماروی میمن ان کا بھر پور ساتھ دے رہے ہیں۔
PML N
الیکشن مہم کی گہما گہمی کے موسم میں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ بھی عروج پرہے اور ساتھ ساتھ سروے کرنے پر مامور ادارے زور و شور سے عوام کی رائے جاننے کو کوششوں میں مصروف ہیں۔اور ابھی تک کی سروے رپورٹس کے مطابق مقابلہ کانٹے دار ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔
اگرچہ یہ حلقہ مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہےلیکن اس مرتبہ تحریک انصاف نے گھر گھر جا کرووٹرز کو متحرک کرنے کی جو پالیسی اپنائی ہے اس نے تحریک انصاف کی انتخابی مہم میں نئی جان ڈال دی ہے۔علاقہ مکینوں کی ایک بڑی تعداد کا یہ کہنا ہے کہ علیم خان نے ق لیگ کے دور حکومت میں اس علاقے کے مکینوں کی سہولت کی خاطر بہت کام کیے تھے اس لیے وہ ایاز صادق کے مقابلے میں مضبوط امیدوار ہیں۔
اس رائے کے برعکس ن لیگ کے حامیوں کا خیال ہے کہ ایاز صادق ایک شریف النفس اور وضع دار انسان ہیں اور علاقے میں کافی مقبول بھی ہیں۔اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ سمن آباد اور اس کے ارد گرد کا علاقہ ن لیگ کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔تا دم تحریر دونوں طرف سے تیاریاں عروج پر ہیں۔ نئی نئی ترکیبیں اور داو پیچ کھیلے جا رہے ہیں۔سیاسی پہلوان اکھاڑے میں سینہ تان کر کھڑے ہیں۔دونوں جانب سے کامیابی کے بلند و بانگ دعوے آسمان کو چھو رہے ہیں۔ایک کو جماعت اسلامی کی حمایت حاصل ہے تو دوسرے کو دیگر مذہبی گروہوں کا سہارا ہے۔
پی ٹی آئی نے حال ہی میں حلقہ میں ایک کامیاب جلسہ کا انعقاد کیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی جلسہ کے شرکا کو ووٹ دینے پر آمادہ بھی کر پاتی ہےکہ نہیں۔ کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں انتخاب لڑنا ایک آرٹ ہےاور مسلم لیگ ن اس آرٹ میں ماہر ہے کیونکہ وہ گذشتہ تین دہائیوں سے مسلسل اس عمل سے گزر رہی ہے جبکہ تحریک انصاف اس مشق میں نو آموز ہے بہرحال اس تمام صورتحال کے باوجود برابر کا جوڑ دکھائی دیتا ہے لیکن حتمی فیصلہ علاقے کے عوام انتخاب والے دن ہی کریں گےکہ وہ کس کو فتح کا تاج پہناتے ہیں اور کس کو مایوسی کی دلدل میں دھکیلتے ہیں۔