اسی فکر سے زمانہ روشن ہوأ ،یہی وہ فکر ہے جس نے روائتی ستاروں پر کمند ،کو حقیقت میں بدل دیا ،اور آج کے آدمزاد نے اپنی خوشحالی اور ترقی کے لئے وہ سب کچھ حاصل کر لیا جس کا ماضی کے آدمزاد کے ہاں تصور بھی نہیں تھا ،یہی وہ فکر ہے جس سے اُس نے بحر کی گہرائی کو ماپا بر کی وسعتوں کو پائمال کیا اور فضاؤں کو چیرتا ہوأاندیکھی دنیا کی تلاش بڑھتا چلا جا رہا ہے یہی وہ فکر ہے جس سے یہ زمین ہی گویا سکڑ گئی ہے ماضی میں جو برسوں کا سفر تھا آج گھنٹوں اور منٹوں میں طے ہوتا ہے ،آج کا انسان گھر بیٹھے محض چند ثانیوں میں پوری دنیا گھوم لیتا ہے مجھے یاد ہے جب کبھی لال آندھی آتی لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے اور توبہ توبہ کرتے کہ کہیں قتل ہوأ ہے۔
پھر دوسرے یا تیسرے دن خبر آتی فلاں گاؤں ،قصبہ یا شہر میں قتل ہوأ،کہ اُس وقت ١٢ کوس کی خبر بھی دوسرے اور تیسرے دن ملتی مگر آج اسی فکر کا کمال ہے کہ …یہی وہ فکر اپنے ساتھی ”کیوں” کے ساتھ مزید جستجوں و تلاش میں …یہاں پر ہی بس نہیں آج کا اِ نسان سامانِ حرب و ضرب میں بھی خود کو اُس مقام پر لے گیا جہاں آناً فاناًکرئہ ارض کو راکھ میں تبدیل کر دے گا ،ماضی کی تاریخ بتاتی ہے زمین پر جب بدی بڑھ گئی تو اِس کے خالق نے اِسے نیست کرنے کا فیصلہ کیا ،چنانچہ زمین پر چالیس دن رات پانی برستا رہا ،ماسوائے آٹھ انسانوں کے تمام کائنات ہر۔
جنس سمیت نیست کر دی گئی ،اور بچ گئے انسان سے خالق کائنات وعدہ کرتے ہیں اب میں اِس کو پھر پانی سے تباہ نہیں کرونگا،کہ بدی تو اس کی سرشت میں ہے ،مطلب یہ کہ کروں گا مگر پانی کے طوفان سے نہیں بلکہ اب یہ کام انسان خود ہی کرے گا ،چنانچہ اسے عقل وفکر سے نوازہ کیا اور اب اِس انسان نے حرب و ضرب میں وہ کچھ حاصل کر لیا ہے کہ اب چالیس دن نہیں بلکہ محض چار منٹوں میں زمین پر کی مخلوق کو نیست و نابود کردیگا کوئی نہیں بچے گا۔
جو یہ بتائے کیا ہوأکیسے ہوأ گزشتہ صدی کے غالباً شروع یا پانچ ،چھ کے بعد جب بیسویں صدی کے عظیم مفکر و فلسفی علامہ داکٹر محمد اقبال شاعر مشرق یورپ گئے تو یہاں کے مقابلے میں یورپ میں روشنی پھیل رہی تھی مگر یہاں برصغیر میں ابھی اندھیرا تھاپاکستان میں روشنی کا دور توساتویں عشرے میں شروع ہوأ…مگر علامہ اقبال نے اُسی روشنی کو دیکھتے ہوئے آزادیء افکار کے عنوان سے نظم کہی جس کا ایک بند ؛اُس قوم میں ہے شوخیِ اندیشہ خطرناک ،،جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد…اگلے بند میں فرماتے ہیں ..:”گو فکرِ خدادادسے روشن ہے زمانہ،،آزادئیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد۔
Egypt
مگر اِس سے قبل مصر کے مشہور و معروف مفتی محمد عبدہ (١٨٤٩۔١٩٠٥ )یورپ کا دورہ کیا واپسی پر جو بیان دیا وہ تب بھی قابل فکر تھا اور آج بھی ” میں نے یورپ میں مسلمان نہیں دیکھے اسلام دیکھا ،مصر میں مسلمان دیکھتا ہوں اسلام نہیںدیکھتا ”۔ بیس برس سے زیادہ عرصہ ہوأ جب مرحوم ،م.ش۔کا کالم پڑھا جو اُس وقت کے حالات حاضرہ پر لکھا اور آزادیء افکار کو ابلیس کی ایجاد قرار دیا ،تب سے یہ سوچ و فکر کی آزادی جِسے ابلیس کی ایجاد کہا، میرے اعصاب پر سوار رہی ، مگر کیا مجھ جیسا سوچ و فکر سے تہی دامن اُس عظیم فلسفی شاعر آعظم کی فکر تک پہنچ سکتا ہے۔
،تاہم یہی سوچ و فکر،جستجو،نت نئی تلاش انسانی جبلت کا خاصہ رہی ہے جِسے ہم گھٹنوں کے بل چلتے بچے میں بھی دیکھ سکتے ہیں اِسی فکر نے مہمیز کیا ، کیا سوچ و فکر واقعی ابلیس کی ایجاد ہے ؟اور اِس سے اجتناب برتا جائے کہ حکیم الاامت علامہ اقبال فرمارہے ہیں ،یہ ٹھیک ہے کہ مادر پدر آزادی سے بے راہ و روی جنم لیتی ہے ،اور یہ بھی سچ ہے جب بھی کسی شے کو دبایا جائے تو وہ اُتنا ہی ابھرے گی ،لیکن سوچ و فکر پر پابندی لگانے سے سوچ و فکر زنگ الود ہو جاتی ہے۔
جس سے ترقی و خوشحالی کا ارتقائی عمل رُک جاتا ہے کیا آج کا آدمزاد واپس تاریک دور میں جانا چاہے گایا جا سکتا ہے؟ ،نہیں میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ممکن ہوکہ وہ الٹا سفر شروع کردے … سوال یہ بھی ہے کہ ابتدا میںآدمزاد فطری طور پر آزاد تھا جب زمین اِسکا وطن ہوأکرتی تھی تب اِس کے لئے کوئی قانون و آئین بھی نہیں تھا کوئی قدغن و پابندی بھی نہیں تھی اور نہ ہی طعن و تشنیع ،البتہ دنیا کی پہلی ریاست جو فقط دو افراد پر مشتمل تھی کے لئے شریعت فقط ایک حکم پر مشتمل تھی (آج کی دنیا سات ارب انسانوں پر مشتمل ہے تو کیا وہی قانون اب یہاں بھی لاگو ہوسکتاہے۔
نہیں وقت کے ساتھ ساتھ اِن میں اضافہ ہوتا رہا ،پہلے آدم وجود میں آیا پھر قانون ) لیکن بعد میںہزاروں صدیوں تک تاریخ خاموش ہے، یہ بے راہ و روی تو شائد اُس عہد میں بھی ہوگی لیکن وہ فطری تھی اِس لئے تو اُس پر قدغن تھی نہ کوئی اعتراض اور نہ ہی کسی بے راہ روی کا سراغ ملتا ہے،لیکن جب اُس نے سوچنا شروع کیا، تو میری اور تیری اورنفرت نے جنم لیا ، یہاں اِس نے کچھ اصول و ضوابط بنائے ،جِسے قانون کہا گیا اور اِس کے اجزائے ترکیبی سے ایک بے ترتیب،بگڑے سماج میں توازن پیدا ہوأ، اور اِسی فکر کی بدولت صدیوں کی مسافت طے کر کے اُس نے اپنا آج روشن کیا اور جب سوچ و فکر کے در وا ہوئے تواِسی فکر سے ترقی و خوشحالی کے مزید در کھُلتے گئے۔
اگر آج کے دور میں آپ ہوتے تو کیا فرماتے ،یہی نہ کہ ابلیس کی اِس ایجاد نے انسان کو یرغمال کیا ہوأہے،اسی خوف سے بہت پہلے قوم کو خبردار کیا کہ ..گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ ،یہ ٹھیک ہے کہ فکر ہی سے زمانہ روشن ہوأ ،مگر’آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد ، بے شک دائیں بازو کے دانشوراور دینی حلقے جو اِس فکر کی آزادی کے خلاف تب سے ہی قوم کو ڈرا رہے ہیں کہ ” فکر و افکار ”ابلیس کی ایجاد ہے ،اس کے باوجود قوم تنہائی اور خوف سے نکلی وقت کے تقاضوں کے پیش نظر زمانے کے ساتھ قدم بہ قدم چل کر خود کو اقوام عالم کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل کیا۔
Allah
فکر و افکار ،ربِ کائنات کی آدم کے لئے عظیم بخشش ہے ،اِسی فکر کا اعجاز ہے کہ حکیم الامت شاعر مشرق آج بھی زندہ ہیں کہ نئے فکر و افکار ہی سے قوم کو ولولہ تازہ دیا ،یہ آج کے آدمزاد پرمنحصر ہے کہ وہ فکر کو مثبت یا منفی رنگ دیتا ہے ، کُلیاتِ اقبال” بانگِ درا کا پہلا حصہ….١٩٠٥تک،دوسرا حصہ ..٠٥…سے ١٩٠٨ تک اور تیسرا حصہ ١٩٠٨ سے …!مگر بالِجبریل ،پر سن نہیںکہ یہ نظم آزادیئی ِ افکار کس سن میں تخلیق ہوئی ، بہر کیف ١س کا سن وہی ہے۔
جب پہلی مرتبہ اقبال مشرقی اندھیرے سے نکل کر مغرب کی روشنی میں داخل ہوئے تو عجیب کیفیت ہوئی۔،زیادہ دور نہ جائیں اگر کوئی ٢٠ برس قبل کے اپنے شہر،گاؤں، محلے میں آئے تو پریشان ہوگا کہ میں بھول گیا ہوں اسی طرح وہ تو اندھیرے سے نکلے تھے روشنی کے ساتھ مادر پدر آزادی دیکھی تو یہ نظم لکھی۔ .. ،ع؛جو دُونیِ فطرت سے نہیں لائِق پرواز؛اُس مُرغکِ بیچارہ کا انجام ہے اُفتاد..،جو کوئی بھی اپنی حدود سے آگے نکلتا ہے اُس کے لئے مصیبت ہوگی۔
پھر ع؛اُس قوم میں ہے شوخیِ اندیشہ خطرناک ،،جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد ۔..وہ مرد معاشرے کی مشرقی روایات کے اسیر تھے جہاں عورت صدیوں سے ،چار دیواری میں محبوس رکھی گئی ،جس کا ظہار اُنہوں اپنے اشعار میں کیا،ع؛اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور،کیا سمجھے گا وہ جس کی رُگوں میں ہے لہُو سرد، نے پردہ ،نہ تعلیم نئی ہو کہ پُرانی؛نسوانیت ِ زن کا نگہباں ہے فقط مَرد۔اِسی لئے انہوں نے فکر کی آزادہ کو ابلیس کی ایجاد کہا ،کہ مسلماں اس سے دور رہے ع؛آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد۔،، ابلیس تو ابتداء آفرنیش ہی سے اِس کا ہمرکاب ہے کہ کب اسے گرائے ،اُس کے پاس وقت کے دو انتہائی موثر ترین ہتھیار؛زر، اور زن جن سے ہمیشہ آدم زاد کو گرایا،ابلیس کے ان ہتھیاروں پر پھر بات ہوگی۔ تحریر : بدر سرحدی 03054784691/03341140431