کبھی نا سوچا تھا ایسا ہو گا

Thinking

Thinking

مرنا آسان ہو گیا جب
زندہ رہنا عذاب ہو گا
وہ تیری چاہت کا تھا فسانہ،
سوال تھا جو جواب ہو گا
راہ الفت میں بہتا دریا
نظر میں ان کی سراب ہو گا
کبھی جو لی زندگی نے کروٹ
حساب بھی بے حساب ہو گا،
حاکم وقت کی منادی
غریب کا خون معاف ہو گا
نظر سے میری اتر گیا وہ
اب اس کا خانہ خراب ہو
کتاب زیست کے ہر صفحے پر
جاہلوں کا نصاب ہو گا
زندہ کیوں ہے یے جو بیگناہ ہے
قتل کیجے ثواب ہو گا
کبھی جو مظلوم کی دہائی
فلک پے پنہچی عذاب ہو گا
ظلم کی ہر کتاب کا اب
تیرے ہی نام انتساب ہو گا
طالب عالم دربدر ہے
جاہل وقت نواب ہو گا
آس کا صحرا تو ہے ہی سوکھا
سمندر بھی اب سراب ہو گا

فہمیدہ غوری .کراچی