تحریر : رقیہ غزل میں نے سوچ رکھا تھا کہ میں بہار کا مژدہ سنائونگی ،پہاڑوں پر پگھلتی برف ،وادیوں میں سنگیت سناتی آبشاروں اور لہروں کی روانیوں میں اٹھکیلیاں کرتے ہوئے چرندو پرند کی داستانیں رقم کرونگی کہ میں اپنے شہر لاہور کے پھولوں اور پتوں سے سجے راستوں پر امٹ تحریر لکھونگی کہ کہر اوروحشت میں گھرے منظر نکھرنے لگے ہیں ،خشبوئیں ہوائوں میں بکھرنے لگی ہیں ،فضائوںمیں پرندوں کی بو لیاں اور فروری کی گھٹی گھٹی اظہار محبت کی سر گوشیاںگنگنا رہی ہیں جو اس نفرت اور وحشت بھرے ماحول میں کہہ رہی ہیں کہ ایسا پیار کرو جو روح کی پاکیزگیوں کو داغدار نہ کرے اور جو پل ملے ہیں وہ سمیٹ لو کہ کیا خبر کل کیاہوجائے۔۔ ویسے فروری کا مہینہ چونکہ مادر پدر آزاد طبقے کے لیے’ ‘تجدید محبت ” سے منسوب ہو رہاہے اس لیے بھی اس میں زیادہ رنگینیاں اور خوشبوئیں ہر طرف نظر آتی ہیں مگر محبت کا فلسفہ عجیب ہے اس کا انجام ہمیشہ درد پر ہی ہوتا ہے لاحاصل کی جستجو میں خود کو گرداب کے حوالے کرنے کا دوسرا نام محبت ہے اگرچہ محبت الہام ہے جوکہ ہر دل پر نہیں اترتی مگر جن دلوں پر اترتی ہے وہ پھر یہی کہتے نظر آتے ہیں مہکتا ہوا فروری اور ترا غم خریدے تھے ہم نے بھی یہ پھول ہم دم ابھی میں اسی سوچ میں گم تھی اور الفاظ ڈھونڈ ہی رہی تھی کہ میرا شہر لرز اٹھا ،لہو لہو ہوگیا ، پھولوں بھرے راستے نمناک آنکھوں میں دھواں ہوگئے ، ہر طرف خاک اڑنے لگی اورچیخ و پکار پھر کہنے لگی بہتا ہے خوں میرے شہر میں سیل رواں کی طرح اتنا ارزاں ہے میرے شہر کا عام آدمی
دشمن نے ایک بار پھر پاکستان کے دل پر وار کیا ہے لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے ہونیو الے بم دھماکے میں متعدد افراد زخمی ، دو سینئرپولیس افسران سمیت ١ افراد شہید ہوئے ہیں یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب مال روڈ پر فارما مینیوفیکچرز اور کیمیسٹس کا احتجاجی دھرنا جاری تھا جبکہ گذشتہ روز کراچی میں سما کے جواں سال رپوٹر تیمور بھی دہشت گردی کا شکار ہوگیا تھا ابھی لاہور لہو لہو تھا کہ کوئٹہ میں ایک بم ناکارہ بناتے ہوئے پھٹ گیا جس سے دو پولیس اہلکار شہید اور ٩ افراد زخمی ہوگئے ادھر کراچی میں ہوٹل میں فائرنگ سے ٣ افراد چل بسے اندرون خانہ تو حالالت تشویش ناک تھے ہی لائین آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت نے اس سوچ کو تقویت دے دی کہ دشمن کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا تو وہ کون ہے جو امن و سلامتی خراب کرنے پر تلا ہوا ہے بلاشبہ ہم سب با خبر ہیں اور جلد حقائق بھی سامنے آجائیں گے مگر مقام افسوس یہ ہے کہ ہم دشمن کی مضموم کاروائیوں سے ایک بار پھر بے خبر رہے حالانکہ ہم ہر وقت ہائی الرٹ رہتے ہیں کسی نے جگنو سے پوچھا کہ تو دن میں باہر کیوں نہیں نکلتا۔جگنو نے کہا کہ میں تو دن رات باہر ہی رہتا ہوں مگر سورج کے سامنے میرا دیا نہیں جلتا تو آپ سورج کیوں نہیں بنتے؟۔ حساس ادارے اور ایف آئی اے والوں نے تفتیش شروع کر دی ہے اور وزیراعظم اور آرمی چیف سمیت سبھی سربراہان نے اس کی مذمت بھی کی ہے اور ہمیشہ کی طرح اس حملے کو بزدلانہ فعل بھی قرار دیا ہے اور اس بات کا یقین بھی دلایا ہے کہ ”سو بار کر چکا ہے تو امتحان ہمارا ” جبکہ سیاسی ، سماجی اور مذہبی راہنمائوں کے مطابق یہ حملہ غیر انسانی اور غیرا سلامی ہے ایسے خود کش دھماکے اسلام اور انسانیت کے خلاف گہری سازش ہیں اور یہ دھماکے کرنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے اس لیے انھوں نے دہشت گردی اور ملکی سرحدوں پر ٹھوس حکمت عملی اپنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق نیکٹا کی جانب سے ٧ فروری کو ہائی الرٹ جاری کیا گیا تھا اور اہم مقامات اور اہم عمارات پر دہشت گردی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ نامعلوم دہشت گرد گروپ لاہور میں حملہ کر سکتا ہے ۔ریڈ الرٹ میں اس پر زور دیا گیا تھا کہ لاہور کی تمام اہم عمارتوں ،مقامات ،اسکولوں اور اسپتالوں کی سیکیورٹی بڑھائی جائے ۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم سرچ آپریشن میں ہی مشغول رہے اور دشمن در پردہ منصوبہ بندی کرتارہا کیا وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ ہی ناکام ہو تے ہیں دشمن جب چاہتا ہے اپنے مذموم ارادے میں کامیاب ہو کر مطلوبہ اہداف حاصل کر لیتا ہے اور ہم بڑی بڑی باتوں کے سوا کچھ نہیں کرتے جبکہ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ پاکستان میںدشمنی اور دہشت گردی کے تانے بانے بھارتی ایجینسی ”را” سے ملتے ہیںپھر بھی ہمارے رویے اور سوچ نہیں بدلتی ہمیں اتنی سی بات 69 برس سے سمجھ میں نہیں آئی کہ دشمن خلاف مصلحت کچھ نہیں کرتا یہاں تک کہ ہندو بنیے ہاتھ بھی بلا مقصد نہیں ملاتے اور اب توامریکہ بھی اسلام دشمنی کا کھلا مظاہرہ کرچکا ہے اور ہم ہیں کہ بس لکیر ہی پیٹ رہے ہیں ہم کیوں ایسا لائحہ عمل اختیار نہیں کرتے جس سے ایسے سانحات سے بچا جا سکے سیف سٹی کا وہ تصور جو بے انت سرمایہ لگا کر قائم کیا گیا تھا وہ صرف ویڈیو ریکارڈنگ تک محدود ہو چکا ہے ۔ہمارا ہر کام فیتے کاٹنے تک تشہیر اور نگرانی میں رہتا ہے اور اس کے بعد بے لاگ تجزیوں اور تبصروں میں دب کر پہلے افادیت کھو تاہے پھردیمک زدہ الماریوں میں بند ہو جاتا ہے بریں سبب ملک و قوم کو خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے مگر مالی خسارہ تو برداشت ہو جاتا ہے اور برسوں سے ہو رہا ہے مگر یہ جانی خسارہ برداشت سے باہر ہے۔
Pakistan
وقتی تقاضا ہے کہ ان فتنہ انگیزیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سب کو متحد ہونا پڑے گا جبکہ ہمارے ہاں تو اندرون خانہ جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے چند روز سے حکومتی ترجمان یوں بیانات داغ رہے تھے جیسے توپیں گولے داغتی ہیں سر براہان سے لیکر سبھی اس بات کا عندیہ دے رہے تھے کہ ہر اٹھنے والے سر کو کاٹ دیا جائے گا عجیب تشویشناک صورتحال نظر آرہی تھی کہ اسمبلی کے فلور پر بھی ایسا ہی مظاہرہ دیکھنے کو آیا جس پر تبصرہ نگاروں نے تجزیہ کرتے ہوئے یہی کہا کہ یہ اپوزیشن سمیت تمام مخالفین کو تنبیہ ہے ۔کہتے ہیں انسان جب اعتدال اور حسن اخلاق سے دور ہو کر غرور و تکبر کے انداز اختیار کرتا ہے تو تباہی و بربادی اسے گھیر لیتی ہے جبکہ عزت دار بننے کے لیے دوسروں کو نادم کرنا نہیں بلکہ عزت دینا ضروری ہے ۔بہر حال ،حقائق سے قطع نظر یہ لمحہ فکریہ ہے کہ لاہور کی سب سے اہم اور مصروف شاہراہ اور مقام کو نشانہ بنایا گیا اور وہ بھی عین اس وقت جبکہ وہاں احتجاجی دھرنا جاری تھا مگر اس سے سے بھی زیادہ حیرت انگیز یہ کہ اکثر ٹاک شوز میں حکومتی نمائندگان بڑے سکون سے فرما رہے تھے کہ ڈی سی او صاحب نے مظاہرین کو سیکیورٹی الرٹ سے آگاہ کر دیا تھا مگران پر کوئی اثر نہیں ہوا یہ ایک نہایت ہی بھونڈا جواز ہے جو پیش کیا گیا ہے کیونکہ قوم ابھی پی ٹی آئی کے احتجاجی دھرنے کو روکنے کے لیے برسائے گئے ڈنڈے اورشیلنگ نہیں بھولی ہے اس لیے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان خود کش دھماکوں کی ذمہ دار حکومت اور سیکیورٹی ادارے بھی ہیں۔بلاشبہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دشمنان پاکستان کے دانت کھٹے کر دئیے تھے مگر اب لگ رہا ہے کہ دہشت گردی کا عفریت پھر سر اٹھا رہا ہے اس لیے اب آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کوآہنی ہاتھوں سے نپٹنا ہوگا اور ملکی سلامتی کے لیے مشکل فیصلے کرنا ہونگے۔
لکھ لکھ کرلکھاریوں نے صفحے کالے کر دئیے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کب ہوگا ؟ یہ جنگ جو ہم پر مسلط کی گئی ہے کیا اسے صرف عوام اور افواج پاکستان نے ہی لڑنا ہے ؟ عوامی مسائل پر کوئی عملی اقدام کب اٹھایا جائے گا ؟ امن عامہ کی نازک صورتحال کو کب محسوس کیا جائے گا ؟ بھارت سے جبتک ہمارے بنیادی تنازعات حل نہیں ہو جاتے اس سے تجارتی اور سفارتی کسی بھی قسم کا واسطہ نہیں رکھا جائے گا اور ادیب اور فنکار بھی پابند رہیں گے کیونکہ دشمن کسی بھی بھیس میں داخل ہو سکتا ہے مگر ہمارے کسی بھی سربراہ کے کانوں پر کبھی جوں تک نہیں رینگی کہ عالمی مشاعروں کی چاٹ اور فلمی میلوں کا بازار عقل مائوف کر دیتا ہے اور اغیار جان چکے ہیں کہ ہم کتنے ایماندار اور اس وطن سے مخلص ہیں ہماری کمزوریاں پوری دنیا میں ڈسکس ہو رہی ہیں کہ اخلاقی جواز ختم ہو چکا ہے ایسے میں سینہ زوری کا مظاہرہ اور عوامی مسائل سے رو گردانی کسی طور بھی دانشمندانہ عمل نہیں ہےاس میں کو ئی دو رائے نہیں کہ سینٹ اور قومی اسمبلی کے فلور پر جو بھونڈا پن ہوتا ہے کاش اس کی جگہ ایسے مسائل اٹھائے جاتے تو آج حالات کچھ اور ہوتے مگر وہاں تھپڑ ،گھونسے ،گالی گلوچ اور جوتوں تک نوبت آن پہنچی ہے اگر غلطی سے کسی دن کوئی عوامی مسئلہ زیر بحث آجائے تو اجلاس کا بائیکاٹ ضرور ہو جاتا ہے یا ایسا جواب سامنے آتا ہے کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ لاہورمال روڈ سانحہ پی ایس ایل پر حملہ ہے چونکہ پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں ہونا تھا جو کہ دشمن ممالک کو برداشت نہیں تھا تو ایسے میں یہ بھی ہے کہ پی ایس ایل والوں نے کون سی قابل فخر کار کردگی کا مظاہرہ کر لیا ہے جب کہ دو پاکستانی کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ کے الزامات ضرور لگ گئے ہیں جسے تعلیم کی کمی اور دولت کی چکا چوند قرار دیا گیا ہے مجھے تو وہ واقعہ یاد آگیا کہ ایک آدمی اپنے دوست کو بتا رہا تھا کہ میں اپنے بچوں کیوجہ سے بہت پریشان ہوں میرے چار بچے ہیں ،ایک نے MBA کیا ہے ،ایک نے MA کیا ہواہے ،تیسرے نے PHD کیا ہواہے اور چوتھا چور ہے ۔دوست حیرانگی سے بولا : ”تو چور کو اپنے گھر سے نکالتے کیوں نہیں ہو ؟” آدمی مسکرایا اور کہا : ”وہی تو کماتا ہے باقی سب تو بیروزگار ہیں ۔”حیرت ہے کہ ہر معاملہ جس پر ملک و قوم کا وقار ٹکا ہوا ہے وہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے اور ہم سب اچھا ہے کا راگ آلاپ رہے ہیں آج بس ہر کسی کا یہی سوال ہے کہ ایسے کب تک چلے گا ؟ اگر ان جگہوں پر بھی مسائل پر بات نہیں ہونی تو کہاں ہوگی اور ان مسائل حل کون کرے گا ؟ہم کب تک اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائیں گے ؟ یہ لہو رنگ بہار کب تک ہمارا مقدر رہے گی ؟ کب تک ۔۔۔آخر کب تک جانے کب تک چلے گا یہ مقدمہ عشق میں نے جیتا نہیں تو نے ہارا نہیں