بھارت کی وہ تمام ہندو انتہا پسند تنظیمیں جو آئے دن مسلم کش فسادات برپا کر کے نہتے مسلمانوں کا خون بہاتی اور ان کی املاک کو برباد کرتی آئی ہیں ان کا اب تک یہی نعرہ رہا ہے کہ ”ہندوستان کے ہندو خطرے میں ہیں” اس لئے ہندو دھرم اور اس کے ماننے والوں پر حملوں کے مقابلہ کیلئے اس خطہ میں بسنے والے سب ہندو ایک ہوجائیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے امسال الیکشن کے بعد احمد آباد گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا خون بہانے والے نریندر مودی کی حکومت آئی ہے یہ سب ہندو انتہا پسندہندوئوں کے تحفظ کا نعرہ ختم کرکے اب بھارت کو ایک”ہندو اسٹیٹ”میں تبدیل کرنے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔
کبھی بہاری مسلمانوں کوبنگلہ دیشی درانداز کہہ کر ان کی عزتوں اور جان ومال پر حملے کئے جاتے ہیں اور انہیں بنگلہ دیش نہ جانے کی صورت میں قتل عام کی دھمکیاں دی جاتی ہیںتو کبھی ہندوستان میں بسنے والے دیگر مسلمانوں کو ان کا مذہب اختیار نہ کرنے اوراپنے آپ کو مکمل ہندو مذہب کے مطابق نہ ڈھالنے کی صورت میں زبردستی پاکستان دھکیلنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ پچھلے دنوں آسام کے کوکرا جھار علاقہ اور دیگر کئی اضلاع میں چالیس سے زائد مسلمانوں کا قتل، سینکڑوں زخمی اور کئی دیہ اتوں کے متاثر ہونے والے مسلم کش فسادات کے پیچھے نریندر مودی اور دوسرے ہندو انتہا پسند لیڈروں کی بنگلہ دیشی مسلمانوں کے خلاف زہریلی تقریریں تھیں۔
جس کے نتیجہ میں کشت و خون کا یہ بازارگرم ہوا اور ہزاروں مسلمان نہ صرف بے گھر ہوئے بلکہ انہیں کئی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑا۔ مسلمانوں کو بے دخل کرنے کی تازہ دھمکی وشواہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل نے دی اور کہا ہے کہ اگر وہ ہندوئوں کے جذبات کا احترام نہیں کریں گے اور ان کی مخالفت کا سلسلہ بند نہیںکیاجائے گا تو پھر بھارت میں ان کا وجود کتنی دیر تک برقرار رہتا ہے’اس کے بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا۔آر ایس ایس، شیو سینا، بی جے پی اور وشواہندوپریشد جیسی تنظیموں کے اہلکاروںنے آجکل پورے بھارت میں ہر چوک و چوراہے، اہم شاہراہوں، سرکاری و غیر سرکاری دفاتر اور دیگر مقامات پر منظم منصوبہ بندی کے تحت مندر بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
ہندو انتہاپسند جہاں چاہتے ہیں بھگوا جھنڈا لگاتے ہیں اور ایک چھوٹی سی مورتی رکھ کر پوجا پاٹ کا آغاز کردیتے ہیں۔کسی کی جرأت نہیں ہے کہ کوئی انہیں یہاں سے ہٹا سکے بلکہ پولیس بھی مکمل طور پر ان کی سرپرستی کرتی ہے اوران کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف انتقامی کاروائی کرتے ہوئے جیلوں میں ٹھونس دیاجاتا ہے۔ انہی انتہا پسندوں کے لیڈر مسلمانوں کو اجودھیا، کاشی اور متھرا کی مساجد پر سے اپنے دعویٰ ختم کرنے کاکہتے ہوئے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق یہ رعایت دینے کے اعلانات کر رہے ہیں۔
کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ایسی ہزاروں مساجد جو مندر توڑ کر وہاں بنائی گئی ہیں وہ محفوظ رہ سکتی ہیں۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا ایک بار پھر سے ڈھنڈورا پیٹاجارہا ہے اور اس حوالہ سے تمام ہندو انتہا پسند تنظیمیں گٹھ جوڑ کر کے فسا پھیلانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جگہ جگہ احمد آباد گجرات اور مظفر نگر کی تاریخ دہرانے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کی مساجدو مدراس اور دینی مدرسوں میں زیر تعلیم طلباء پر تشویشناک حد تک حملے بڑھ چکے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں یاتریوں کاتصادم ہوا تو اسے جان بوجھ کر ایشو بنانے کی کوشش کی گئی اور وشواہندو پریشد کے لیڈر پروین توگڑیا جیسے ہندو مذہب کے ٹھیکیداروںنے علی الاعلان یہ کہنا شروع کر دیا کہ مسلمان احمد آباد گجرات کو بھول چکے ہوں گے۔
مگر انہیں ایک سال قبل پیش آنیو الے مظفر نگر فسادات کو ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ اس موقع پر ان کے ساتھ کیا ہواتھا؟دنیا حیران ہے کہ بھارت میں کوئی مسلمان ہندو انتہا پسندوں کے بارے میں کوئی چھوٹا سا بیان دے دے تو اسے اٹھا کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے مگر ان ہندو انتہا پسندوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد ہندو انتہا پسندوں کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے ہیں۔
Muslims
کہ انہوں نے باقاعدہ طور پر مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ جگہ جگہ سے یہ شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ ان بھگوا دہشت گردوں کی جانب سے مسلمانوں کے اذان کہنے اور نمازوں کی ادائیگی میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔حال ہی میں بھارتی ریاست مہاراشٹر میں کھانے کی کوالٹی کمزور ہونے کے الزام پر ہندو انتہاپسند تنظیم شیو سینا کے ممبران پارلیمنٹ نے بدترین غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاںموجود ایک مسلم کیٹرنگ سپروائزر کاروزہ تڑوا دیااور انڈین ریلویز کیٹرنگ اینڈ ٹورزم کمپنی (آئی آر سی ٹی سی)کے مینیجر ارشد کو زبردستی ایک چپاتی کھانے پر مجبور کیا گیا۔اس دوران متعصب اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف زہریلی زبان استعمال کرتے ہوئے ارشد نامی مینیجر پر زدوکوب کیا گیااوراسے گالیاں دی گئیں۔مذکورہ مسلمان نے مخصوص وردی پہن رکھی تھی جس پر اس کے نام کا ٹیگ بھی چسپاں تھا اور پھر شیو سینا غنڈوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ آجکل رمضان المبارک کا مہینہ چل رہا ہے اور ریلویز کیٹرنگ کمپنی کا یہ مینیجر بھی روزے سے ہے۔
مگر اس بات کا قطعی طور پر کوئی خیال نہیں رکھا گیااور میڈیا کے سامنے زبردستی اس کے منہ میں چپاتی ٹھونس کر اسے نگلنے کیلئے دھمکایا جاتا رہا ۔ مہاراشٹر سدن کے ڈپٹی جنرل منیجر شنکر ملہوترا نے ریاستی حکام کو ای میل کے ذریعہ اس واقعہ کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے یہ انکشاف بھی کیا کہ یہاں کسی مسلمان کے ساتھ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ مسلمان ملازمین کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا جس سے ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں لیکن بد قسمتی سے حکام ان کی داد رسی نہیں کرتے۔مذکورہ واقعے کی خبر میڈیا میں نشر ہونے پرراجیہ سبھا اور لوک سبھا میںمسلم ممبران پارلیمنٹ اور کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔
جس پر بی جے پی کی جانب سے واقعہ کی تو مذمت کر دی گئی لیکن ایک مسلمان کا روزہ تڑوانے والے کسی بھی رکن پارلیمنٹ کے خلاف کارروائی کا اعلان کرنے سے واضح انکار کر دیا گیا۔اگر شیو سینا ممبران پارلیمنٹ کی طرف سے روزہ تڑوانے کی ویڈیو منظر عام پر نہ آتی تو یہ لوگ سرے سے ہی اس واقعہ سے انکار کر دیتے۔کانگریس کے دور حکومت میں بھی مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت عام سی بات تھی مگر مودی حکومت کے آتے ہی یہ سلسلہ دن بدن بہت زیادہ شدت اختیا رکرتا جارہا ہے۔کئی بھارتی جیلوں میں قید مسلمانوں کو سحری و افطاری کے موقع پر کھانا نہیں دیاجارہا اور نہ ہی انہیں باہر سے منگوانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں مسلم قیدیوں کیلئے قرآن پاک کی تلاوت کرنا محال ہے بعض جیلوںمیں انہیں زبردستی تلاوت کی بجائے بھجن گانے پر مجبور کیاجاتا ہے۔
یہ باتیں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں بلکہ بارہا میڈیا کے ذریعہ پوری دنیا کے سامنے آچکی ہیں۔ بھارت میں بڑی تعداد میں تاریخی مساجد ایسی ہیں جنہیں تاریخی ورثہ قراردیکرسرکاری قبضہ میں لیا گیا اور پھر وہاں داخلہ کیلئے ٹکٹ لگادیا گیا ہے مگر دوسری جانب انہی مساجد میں ہندو انتہا پسند بغیر ٹکٹ کے داخل ہوتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر ہی مسلمانوں کی نسل کشی کے پلان ترتیب دیے جاتے ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں تربیتی کیمپوں میںاپنے اہلکاروں کو نازیوں کی طرز پر تربیت دے رہی ہیں اور کروڑوں مسلمانوں کو وہاں سے بے دخل کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں مگر انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس دن انڈیا کو ایک ہندو اسٹیٹ میں تبدیل کیا گیا۔
Allah
تو مسلم ریاستوں میںچلنے والی تحریکوں کی بدولت یہ ملک موجود ہ ہندوستان جیسا وسیع و عریض نہیں ہو گا بلکہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گا۔ ایسا مطالبہ کرنے والوں کو یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہئے کہ اقلیتیں اکثریت کی یلغار سے کبھی ختم نہیں ہوا کرتیں کیونکہ عموما اقلیتیں حق پر ہوتی ہیں اس لئے وہی وہ زندہ رہتی ہیں اور پھر جہاں تک بھارتی مسلمانوں کی بات ہے تو وہ اتنی تعداد میں ہیں کہ انہیں تو اقلیت بھی نہیں کہاجاسکتا ۔بھارتی مسلمانوں کا مستقبل ان شاء اللہ تابناک ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کی پالیسیاں جلد انہیں لے ڈوبیں گی۔