بھارت میں تقسیم ہند کے بعد سے پندرہ عام انتخابات ہو چکے ہیں اور ان دنوں سولہویں انتخابات کے سلسلہ میں پولنگ کا سلسلہ جاری ہے لیکن حالیہ الیکشن پہلے ہونے والے انتخابات سے بہت زیادہ مختلف نوعیت کے ہیں۔ جس طرح اب انتخابات میں مسلمانوں کو ہراساں کر کے، دھونس و دھمکیوں، لالچ اور میڈیا پر بلا دریغ پیسہ بہاکرکامیابی حاصل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیںماضی میں ایسی ڈھٹائی کا مظاہرہ کم ہوتا رہا ہے۔ اصولوں پر عمل کرنا تو درکنارہر طرف انسانیت کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کی طرف سے وزیر اعظم بننے سے قبل ہی رام مندر کی تعمیرکے اعلانات،مسلمانوں کے گائے ذبح کرنے اور گوشت کھانے پر پابندیاں لگانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔
بی جے پی انتخابات میں کامیابی کیلئے ہر حربہ آزما رہی ہے۔مسلمانوں کو بی جے پی کے امیدواروں کو ووٹ نہ ڈالنے کی صورت میں ان کاناطقہ بند کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں تو دوسری جانب ان کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے ان کا دل لبھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔بظاہر یہ انتخابات جمہوریت کیلئے ہیں لیکن اس میںوہ تمامتر غیر جمہوری رویے جواختیار کئے جاسکتے تھے کئے جارہے ہیں۔ بھارت کی مختلف ریاستوں کی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی انتخابات کا عمل جاری ہے۔ وہاں بھی بی جے پی جموںمیں جہاں ہندوئوں کی اکثریت ہے کھل کھیل رہی ہے۔
بھارتی فوج کی زیر نگرانی ہندوانتہا پسندوں کو ووٹ ڈلوائے جارہے ہیں تو دوسری جانب نریندرمودی کی طرف سے حریت پسند قائدین کو اپنے دام فریب میں پھانسنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے دہلی سے علاج کرواکے واپس سری نگر پہنچنے کے تیسرے دن اپنی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ جب وہ علاج کیلئے دہلی میں قیام پذیر تھے تو مودی نے اپنے دو رابطہ کارپنڈت نمائندے میرے پاس بھیجے اور پیش کش کی کہ اگر وہ انتخابات کے دوران مقبوضہ کشمیر میں ان کی حمایت کریں تو میں انتخابات جیت کر وزیر اعظم بننے کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عملی طور پر کوششیںکروں گالیکن انہوںنے مودی کی اس پیشکش کوموقع پر ہی مسترد کر دیااورکہاکہ وہ ہزاروں مسلمانوںکا قاتل ہے۔
ہم اس کی کسی صورت حمایت نہیں کر سکتے۔ بزرگ کشمیری رہنما نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ مودی کے نمائندوں نے نئی دہلی میں کئی کشمیری تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں اور غالباانہیں بھی یقینا اس نوعیت کی یقین دہانیاں کروائی گئی ہوں گی شاید یہی وجہ ہے کہ بعض کشمیری لیڈروں کی طرف سے مودی کے بارے میں بیانات جاری کئے گئے۔ سید علی گیلانی نے اس بات پر سخت ناپسندیدگی کا اظہا رکیا کہ جو لوگ مودی کے نمائندوں سے ملے انہوںنے کشمیری قوم سے یہ ملاقاتیں اور اس دوران ہونے والی باتیں چھپائی ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ سید علی گیلانی کا یہ شکوہ بالکل بجا ہے۔
مسلمان ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ احمد آباد گجرات میں جس درندے کی قیادت میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا،خواتین کے پیٹ چاک کئے گئے اور نوزائیدہ بچوں کو باہر نکال کر ترشول سے ٹکڑے ٹکڑے کر آگ میں پھینکا جاتا رہا۔گودھرا ٹرین حادثہ، سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد، مالیگائوں بم دھماکوں اور مظفر نگر فسادات کی مجرم جماعت کا لیڈرجو آر ایس ایس کے نظریات پروان چڑھانے میں مصروف ہے اور جس کی زہر آلود گفتگو سے آج بھی پچیس کروڑ مسلمان خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں’ اس پر بھروسہ کیسے کیاجاسکتا ہے؟اور ایسے قاتل سے کسی حقیقت پسندانہ اقدام سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟کانگریس ہو یا بی جے پی وہ کسی طور مسلمانوں کے حق میں نہیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام کشمیری جماعتوں کوان کے دھوکہ میں آنے کی بجائے اتحادواتفاق سے اپنی جدوجہد آزادی کو بھرپور انداز میںجاری رکھنا چاہیے۔ کشمیری مسلمانوں کی قربانیوںو شہادتوں کے نتیجہ میں ان کی یہ تحریک جلد ان شاء اللہ ثمر آور ثابت ہو گی اور وہ آزادفضائوںمیں سانس لے سکیں گے۔
Syed Ali Geelani
سید علی گیلانی نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران مقبوضہ کشمیر میں ڈھونگ الیکشن کے خلاف حریت تنظیموں کی جانب سے چلائی جانے والی بائیکاٹ مہم ناکام بنانے کیلئے کی جانے والی گرفتاریوں اور ظلم و زیادتیوںکے خلاف 21اپریل کو ہڑتال اور انتخابات کے دوران کشمیریوں سے سول کرفیو کی بھی اپیل کی اورانتخابات کے بائیکاٹ کا عزم دہراتے ہوئے کہاکہبھارتی حکمران اگر جموں کشمیر میں اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرانے کا بندوبست کریں تو حریت کانفرنس اس عمل میں ضروربھرپورانداز میں شرکت کرے گی اور ثابت کرے گی کہ وہ عوام کی غالب اکثر یت کی خواہشات اور امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ آٹھ لاکھ افواج، سی آر پی ایف،بی ایس ایف، انڈو تبتین بارڈر پولیس اور دیگر فورسز کی موجودگی میں جموں کشمیر میں منعقد کئے جانے والے انتخابی ڈرامے کی کوئی اعتباریت نہیں ہے۔ یہ محض ایک فوجی آپریشن ہے جس میں بھارتی فوج اور خفیہ ایجنسیاں براہِ راست مداخلت کرتی ہیں۔انسپکٹر جنرل پولیس مقبوضہ کشمیر نے اس بات کا دعویٰ کیا تھاکہ انتخابات کے دوران کسی قسم کی پکڑ دھکڑ اورگھروں پر چھاپے نہیں مارے جائیں گے مگر یہ سب باتیں غلط ثابت ہوئی ہیں۔ جے کے ایل ایف سربراہ محمد یٰسین ملک، مختار احمد وازہ ، نعیم احمد خاں اور ظفر اکبر بٹ سمیت دو سو سے زائد کشمیری نوجوانوں اور حریت رہنمائوںکو الیکشن بائیکاٹ مہم کو ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے زبردستی گھروں سے اٹھا کرجیلوں اورپولیس تھانوںمیں بند کر دیا گیا ہے۔
خود سید علی گیلانی جب نئی دہلی سے علاج کے بعد واپس آئے تو ان کو گھر میں نظر بند کر کے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ حریت کانفرنس (گ) کی طرف سے سیرت کانفرنسوں کے پروگرام چل رہے تھے ان میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور پابندیاںلگائی جارہی ہیں کہ کہیں ان کے ذریعہ بھی الیکشن بائیکاٹ مہم زور نہ پکڑ لے۔مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں پنجگام پلوامہ، قوئل ایئرپورٹ اور بلہ پورہ شوپیاں میں تعینات فوجی کیمپوںکے اہلکار بستیوںمیں گشت کر کے حریت تنظیموں کے دیواروں پر لگائے گئے پوسٹر اتار رہے ہیں اور کشمیریوں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دینے کی خبریں آرہی ہیں۔ اس سے کشمیر میں ہونے والے انتخابات کی اصل حقیقت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
یہ انتخابات محض ایک یکطرفہ کھیل بن کر رہ گئے ہیں جن میں سید علی گیلانی جیسے حریت پسند قائدین کو اپنا موقف تک عوام تک پہنچانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔جے کے ایل ایف کے سربراہ محمد یٰسین ملک پچھلے کئی دنوں سے نظر بند ہیں انہیں بھی پروگراموںمیں شرکت کی اجازت نہیں دی جارہی ۔ ان کے بعد اب لبریشن فرنٹ کے زونل چیف آرگنائز بشیر احمد کشمیری کوبھی گرفتار کرلیا گیا ہے اور دیگر رہنمائوں کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ بھارتی فوج کی طرف سے گھروں پر چھاپوںکے دوران خواتین کو ہراساںکرنے،بچوں اور بوڑھوں پر تشدد کے واقعات بھی پیش آر ہے ہیں جس پر مظلوم کشمیری سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
Kashmiri People
غاصب بھارت کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ کشمیریوں کو الیکشن کے جتنے مرضی فوائد بتلا تا رہے اور جس قدر مرضی مظالم ڈھائے جائیں کشمیریوں کو یہ بات معلوم ہے کہ انتخابات میں حصہ لینا ان کی ملی غیرت کے برعکس ہے اوریہ کہ بھارتی آئین و قانون اور فوجی طاقت کے بل پر منعقد کرائے جانے والے الیکشن ہر حال میں ایک میٹھا زہر ہیں جو کشمیریوں کی تحریک آزادی ختم کرنے اور بھارتی فوجی قبضہ مزید مستحکم کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ اس لئے چند ایک بھارت نواز پارٹیوں سے منسلک لوگوں کے علاوہ کشمیری قوم ماضی کی طرح اس بار بھی بھارت سرکار کے دھوکہ میں نہیںآئے گی اور کسی صورت الیکشن میں حصہ نہیںلے گی۔