وزیراعظم میاں نواز شریف نے ملک میں نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے اور ترقی کے مواقع دینے کے لئے 20 ارب روپے کی 6 اسکیموں کا اعلان کیا ہے۔ ان اسکیموں کے تحت وظائف کے علاوہ ذاتی کاروبار شروع کرنے کے لئے بھی وسائل فراہم کئے جائیں گے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے نوجوانوں کی بہبود کا عزم ایک خوش آئند اقدام ہے لیکن اسے سیاسی مفادات کی نذر نہیں ہونا چاہئے۔
وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے نوجوانوں کی اہمیت اور ملک سے غربت کے خاتمہ کے لئے حکومت کے عزائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ کسی نوجوان کو روزگار کے لئے ملک نہ چھوڑنا پڑے۔ انہوں نے اس نیک خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ ملکی وسائل کا بیشتر حصہ فلاح بہبود کے کاموں پر صرف کیا جائے۔
یہ باتیں سیاسی عزائم اور اعلان کی حد تک بے حد بھلی اور خوبصورت لگتی ہیں تاہم ملک کو اس راہ پر گامزن کرنے کے لئے جس خود مختاری اور اقتصادی استحکام کی ضرورت ہے، اس کی فراہمی کے لئے حکومت ابھی تک ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کر سکی ہے۔ ملک کے وسیع اقتصادی وسائل غیر ملکی قرضوں، بڑی فوج اور دہشت گردی جیسے عفریت سے نمٹنے میں صرف ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی اقتدار سنبھالتے ہی آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر سے زائد قرضے حاصل کئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ملک کی معیشت قرضوں کی ادائیگی کی سکت نہیں رکھتی۔
یہی وجہ ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت کو آئی ایم ایف IMF سے نئے قرضے پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لئے لینا پڑے ہیں۔ جو ملک اپنے بیشتر وسائل صرف قرضوں کی ادائیگی میں صرف کر رہا ہو وہ معاشی نمو، نوجوانوں کی ترقی اور عوام کی فلاح کے لئے وسائل کیونکر فراہم کر سکتا ہے۔ اس لئے وزیراعظم نوجوانوں کے لئے بڑے اور خوشنما عزائم رکھنے اور دعوے کرنے کے باوجود اس اہم مد میں صرف 20 ارب روپے صرف کر سکے ہیں۔ اس بات کا تخمینہ مشکل ہے کہ ملک میں نوجوانوں میں بیروزگاری کی کیا شرح ہے۔
تاہم 18 سے 25 برس تک نوجوانوں کی تعداد 2 سے 3 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس گروہ میں بے روزگاری ساٹھ سے ستر فیصد تک ہے۔ اس لحاظ سے 20 ارب روپے کی معمولی رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق، نہ ہونے کے برابر ہے۔اس کے باوجود یہ کہنا ضروری ہے کہ ان اہم اسکیموں کے اعلان سے حکومت وقت نے نوجوانوں میں بے روزگاری کے اہم مسئلہ پر توجہ دینے کی کوشش کی ہے۔ وزیراعظم کی تقریر میں بار بار یہ احساس دلایا گیا ہے کہ حکومت نوجوانوں کو بامقصد زندگی گزارنے کے قابل بنانے کے لئے بے حد سنجیدہ ہے۔ حکومت نے نوجوانوں کے لئے جو 6 منصوبے شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے ان کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے۔
Pakistani Youth
معاشرے کے محروم طبقوں کے لئے سود کے بغیر آسان اقساط میں ادائیگی والے قرضوں کا اجرائ۔ اس مد میں ساڑھے تین ارب فراہم کئے جائیں گے اور اس سے اڑھائی لاکھ لوگ استفادہ کر سکیں گے۔ تعلیم یافتہ یا پیشہ وارانہ تربیت یافتہ نوجوانوں کو اپنا کاروبار شروع کرنے کے لئے قرضوں کا آغاز کیا جائے گا۔ اس اسکیم کے تحت 5 لاکھ سے 20 لاکھ روپے قرض فراہم کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ لڑکیوں کو بھی یہ قرض لینے کا مساوی موقع دیا جائے گا۔ اس اسکیم پر 5 ارب روپے لاگت آئے گی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو پیشہ وارانہ تربیت فراہم کرنے کے لئے وسائل فراہم کئے جائیں گے۔ یہ پیشکش ایسے نوجوانوں کے لئے ہو گی جنہوں نے 16 برس یا اس سے زیادہ تعلیم حاصل کی ہے۔ حکومت اس منصوبے پر 4 ارب روپے صرف کرے گی اور اس سے 50 ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان استفادہ کر سکیں گے۔
کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو پیشہ وارانہ تربیت فراہم کرنے کے لئے 6 ماہ کے کورسز شروع کئے جائیں گے۔ ان تربیتی کورسز میں شامل ہونے والے نوجوانوں کا کم از کم آٹھ جماعت تک تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہو گا۔ ہر طالب علم کو کورس کے دوران 5 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ ملے گا۔ اس اسکیم پر 2.3 ارب روپے صرف ہوں گے۔ غریب طالب علموں کو ماسٹرز یا اس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے وظائف دئیے جائیں گے۔ اس منصوبے پر 1.2 ارب روپے صرف کئے جائیں گے اور اس اسکیم میں شامل 30 ہزار طالب علموں کو 2 سالہ ماسٹرز کی تعلیم کے لئے 40 ہزار روپے سالانہ وظیفہ دیا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے ملک کے ایک لاکھ طالب علموں کو لیپ ٹاپ فراہم کرنے کے لئے 4 ارب روپے صرف کئے جائیں گے۔
یہ سارے منصوبے اپنی جگہ خوش آئند ہیں تاہم انہیں کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہو گا کہ ان سب اسکیموں کو حقیقی ضرورت مندوں کے استفادہ کے لئے استعمال کیا جائے۔ حکومت اور اس کے اہلکار ان منصوبوں کو سیاسی نوازشات یا رشوت کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اگرچہ پاکستان کے فرسودہ سیاسی اور بدعنوان سماجی نظام میں اس قسم کی توقع کرنا ایک بے معنی امید ہے لیکن اگر حکومت اس معاملہ میں کوئی رخشندہ مثال قائم کر سکے تو یہ ملک و قوم کے لئے نہایت سود مند اقدام ہو سکتا ہے۔
اس بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ نوجوان کسی بھی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں بیروزگاری بڑھنے اور اس اہم طبقہ کے بیکار رہنے سے نہ صرف یہ کہ ملک و قوم اہم ورکنگ فورس سے محروم ہوتے ہیں بلکہ ایک ایسی نسل میں مایوسی اور ناامیدی بھی پیدا ہوتی ہے جو آنے والے وقت میں ملک کا نظام سنبھالنے والی ہے۔
ملک میں بدامنی اور انتہا پسندی کے تناظر میں بھی نوجوانوں کے لئے اقدامات بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ انتہا پسند گروہ نوجوانوں میں مایوسی کا فائدہ اٹھا کر انہیں گمراہ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث نوجوانوں کی اکثریت اس قسم کے گمراہ کئے ہوئے نوجوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے، کاروبار میں ملوث کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے موقع فراہم کرنے سے منفی رجحانات کا بھی قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم کے اعلان کے مطابق نوجوانوں کی بہبود کے لئے مختص کئے گئے وسائل اگرچہ بے حد محدود ہیں لیکن حکومت کے سربراہ نے جس طرح اس ضرورت کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے، اس سے نوجوانوں کے رویہ اور طرز عمل پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کسی معاشرے کی نوجوان نسل کو یہ احساس دلانا بے حد ضروری ہوتا ہے کہ ان کے والدین اور لواحقین کے علاوہ ان کا ملک اور حکومت بھی ان کی اہمیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس حوصلہ افزائی کے نتیجے میں اس نسل میں آگے بڑھنے اور اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
نواز لیگ کی حکومت نے ماضی میں بھی ترقیاتی کاموں کے سا تھ ساتھ نوجوان نسل کے لیے ایسی سکیموں کا آغاز کیا تھا جن کے بھرپور مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ اب جب کہ ایک بار پھر نواز لیگ حکومت میں ہے اور وہ نوجوانوں کے لیے کام بھی کرنا چاہتی ہے تو یہ خیال ضرور رکھا جائے کہ خزانے کی کمزور حالت اور بدحال معیشت ایسی سکیموں کا بوجھ اٹھانے کی بمشکل متحمل ہو گی۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سکیموں کو ہر ممکن حد تک شفاف اور واضح بنایا جائے تاکہ حکومتی اقدامات عوامی سطح پر فوائد کے ساتھ ساتھ معاشی ابتری کا سبب نہ بنیں۔