اسلام آباد (جیوڈیسک) پرویز مشرف کے وکیل ابراہم ستی نے اعتراف کیا ہے کہ تین نومبر کی ایمرجنسی مشرف نے اپنی صوابدید پر لگائی، اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے تجویز نہیں دی تھی جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے صاف گوئی قابل ستائش ہے،آپ نے تو معاملہ ہی کلیئر کر دیا۔
31جولائی کے فیصلے پر سابق صدر پرویز مشرف کی نظرثانی اپیل پر سپریم کورٹ کے چودہ رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے مشرف کے وکیل ابراہیم ستی سے استفسار کیا۔کیا پرویز مشرف نے ایمرجنسی اپنی صوابدید پر لگائی تھی؟ جس پر وکیل ابراہیم ستی نے کہا اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے آئین کے تحت مشرف کو ایمرجنسی لگانے کی تجویز نہیں دی تھی۔
آرمی چیف کو ایڈوائس نہیں ہو سکتی۔ پرویز مشرف نے ایمرجنسی اپنی صوابدید پر لگائی تھی۔اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے آپ کی صاف گوئی قابل ستائش ہے آپ نے تو معاملہ ہی کلیئر کر دیا۔مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے کہا ملک میں ہر چیز آئین کے تحت چلتی رہی ماسوائے عدلیہ کے،جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے سب کچھ آئین کے تحت چل رہا تھا تو ایمرجنسی کیوں لگائی گئی۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا آئین کی کونسی شق میں لکھا ہے آرمی چیف کو ایمرجنسی لگانے کا اختیار ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے مشرف نے سوچا ہو گا دوبارہ بھی غیرآئینی اقدام کرونگا تو درگز کر دیا جاؤنگا۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیئے عدالت نے وفاقی حکومت کے جمع کرائے گئے جواب میں کیس نمٹایا تھا۔اس موقع پر ابراہیم ستی نے شوکت عزیز کا پرویز مشرف کو لکھا گیا خط عدالت میں پڑھ کر سنایا جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کیا وزیر اعظم نے خط میں آئین پامال کرنے کی بات کی تھی۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ نے اس خط کے بارے میں بحث کی ہے۔پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے کہا یہ بحث صرف ایک شخص نے کی ہے۔جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ فیصلہ بھی ایک شخص کا ہی تھا۔
دوسری طرف پرویز مشرف کے وکیل انور منصور نے اکتیس جولائی کی عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظرثانی اپیل کا فیصلہ آنے تک غداری کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کر دی ہے جس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جب تک سپریم کورٹ حکم امتناعی جاری نہیں کرتی کارروائی کیسے روکی جا سکتی ہے۔