جمعرات کی صبح کے گیارہ بجکر تیئس منٹ پر آفس میں کام میں مصروف تھا کہ موبائل کی بیل نے چونکا دیا، فون اٹھایا تو دوسری طرف ہمارے لاہوری کرم فرماء جناب ظہور الدین امرتسری (جوکراچی تشریف لائے ہوئے ہیں)گھبراہٹ کے عالم میں بتارہے تھے کہ ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج صاحب اب اِس دنیا میں نہیں رہے،انہیں دہشت گردوں نےگولی ماردی ہے۔ظہورالدین صاحب کی اطلاع نے دل و دماغ میں سناٹا سا طاری کردیا۔وہ بہت دیر تک حافظ شکیل اوج صاحب کی باتیں کرتے رہے،مگر کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا،بس ہاں،ہوں کرکے گفتگو کا سلسلہ منقطع کیا اور بہت دیر تک گم سم بیٹھا رہا۔ذہن کے نہاں خانے میں حافظ شکیل اوج صاحب کی تصویر تھی جو بار بار ابھر رہی تھی،کبھی کسی ملاقات کی یاد تو کبھی کسی محفل میں اُن کی گفتگو پردہ ذہن پر نمودار ہوتی رہی تھی۔
کافی دیر دل و دماغ اسی شش وپنج میں مبتلا رہا کہ اوج صاحب علمی وادبی آدمی تھے،اُن کا کسی سے کیا جھگڑا۔ ۔ ۔ ۔کیا لینا دینا۔ ۔ ۔ ۔اے کاش ! ۔ ۔ ۔ ۔ یہ خبر غلط نکلے۔ لیکن جب کسی طور طبیعت کی بے چینی دور نہ ہوئی اور اطمینان قلب حاصل نہ ہوا،تو ہم نے ڈاکٹر شکیل اوج صاحب کے شاگرد راشد انصاری کو فون کیا۔جواباًراشد بھائی کی رنجیدہ آواز ہمیں اندیشوں کی وادی سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لے آئی اور پھر شام تک تو ڈاکٹر صاحب کی ناگہانی جدائی پر مبنی لاتعداد میسجز اور احباب کی فون کالزہمارا پیچھا کرتی رہی۔
ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج صاحب سے واقفیت اور تعلق کا رشتہ کافی پرانا ہے،یہ اُن دنوں کی بات ہے،جب ڈاکٹر شکیل اوج صاحب نے پی،ایچ،ڈی نہیں کی تھی،ابھی اُن کے نام کے ساتھ پروفیسر اور ڈاکٹر کے لاحقے بھی نہیں لگے تھے۔نہ ہی اُس زمانے میں آپ گورنمنٹ اردو کالج میں لیکچرار مقررہوئے تھے،ہاں ڈاکٹر صاحب اُس زمانے میں ایک ابھرتے ہوئے نوجوان مذہبی اسکالر ”حافظ محمد شکیل اوج“کے طور پر جانے جاتے تھے،ابھی اُن کی وسعت پروازآئمہ ومجتہدین کے دائرہ اجتہاد سے باہر نہیں نکلی تھی اور فکرونظر کے زوایئے تبدیل نہیں ہوئے۔اِس لیے ہمارے دوست محمد فرید نورانی (اللہ انہیں غریق رحمت کرے) اکثر اپنے پروگرامات میں حافظ محمد شکیل اوج صاحب کو بطور مقرر بلوایا کرتے تھے،انہی پروگرامات میں ہمیں حافظ محمد شکیل اوج صاحب سے تعارف کا موقع ملا،وہ دور ہمارا بھی زمانہ طالبعلمی تھا۔
وقت گزرتا رہا،حافظ محمد شکیل اوج صاحب زندگی کے مدارج طے کرتے ہوئے گورنمنٹ اردو کالج اور پھر کراچی یونیورسٹی پہنچے اور پی ایچ ڈی کرکے پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج کہلائے۔بعد میں ڈاکٹر صاحب سے بارہا جامعہ نعیمیہ میں ناظم تعلیمات حضرت علامہ جمیل احمد نعیمی صاحب اور پروفیسر مفتی منیب الرحمن صاحب کے پاس ملاقات کا موقع ملا۔ڈاکٹر صاحب مسکراہٹ وخنداں پیشانی سے ملتے،گلے لگاکر محبت وشفقت کا اظہار فرماتے،ہمیشہ تعریف وحوصلہ افرائی کرتے اور اکثراپنی کتب ورسائل کے تحفے عنایت کرتے،مگراُن کے بدلتے ہوئے فقہی نظریات اوربعض دینی معاملات میں آزاد خیالی ایک دیوار کی صورت حائل رہتی۔
ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج دنیائے اسلام کے پہلے استاد تھے جنھیں اسلامیات میں دنیا کی سب سے بڑی سند ڈی لیٹ تفویض کی گئی،شکیل اوج کے والدین کا تعلق ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے شہر کان پور سے تھا، تقسیم کے بعد آپ کا خاندان لاہور آ گیا اور بعد میں کچھ عرصے حیدرآباد قیام کے بعد کراچی کی نئی بستی ڈرگ کالونی میں آباد ہوا،جو شاہ فیصل کالونی کے نام سے معروف ہوئی۔والد عبدالحمید خان کا تعلق متوسط طبقے سے تھا،یوسف زئی پٹھان خاندان سے تعلق رکھنے والے حافظ محمد شکیل اوج نے یکم جنوری1960ء کو شاہ فیصل کالونی میں آنکھ کھولی،دس بہن بھائیوں میں آپ کا شمار چوتھے نمبر پر تھا۔
حافظ محمد شکیل اوج نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ایگروٹیکنیکل ہائی اسکول شاہ فیصل کالونی سے حاصل کی،گھر کا ماحول روایتی معنوں میں مذہبی نہیں تھا، اِسی لیے جب شکیل اوج نے دینی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تو والد کو بڑی حیرانی ہوئی۔مذہبی تعلیم کیلئے مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کے بہنوئی،ممتاز عالم دین اور فلسفے کے استاد ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری کے قائم کردہ مدرسہ المرکز اسلامی کا انتخاب کیا،جنھوں نے فلسفے میں پی ایچ ڈی (Ph.D) کی سند حاصل کی ہوئی تھی۔مدرسہ نور القران سے حفظ کیا،تجوید و قرات کی تعلیم قاری طالب حسین المدنی سے لی،سندِ حدیث و تفسیر ابو فہیم انوار اللہ سے حاصل کی اور دارالعلوم قادریہ سبحانیہ سے سند فراغت حاصل کی۔
حافظ محمد شکیل اوج نے مذہبی تعلیم کے ساتھ جدید تعلیم بھی حاصل کی،آپ نے علامہ اقبال کالج شاہراہِ فیصل سے بی اے کیا اور وفاقی اردو یونیورسٹی کے کلیہ معارف اسلامیہ سے ایم اے کیا۔ شکیل اوج صاحب نے زندگی کی گاڑی چلانے کیلئے میٹرک کے بعدمختلف ملازمتیں بھی کیں۔وہ ملٹری اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ میں کلرک رہے،اسی دوران آپ نے صحافت میں ایم اے کیا اور قانون کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی۔ گورنمنٹ اردو کالج میں شعبہ اسلامیات میں اوّل پوزیشن حاصل کرنے پر ادارے سے لیکچرار شپ کی پیشکش قبول کی،آٹھ برس بعد آپ کا تقررکراچی یونیورسٹی کے کلیہ معارف اسلامیہ(جو تین شعبوں” شعبہ علوم اسلامی، شعبہ قرآن و سنت اور شعبہ اصول دین“ پر مشتمل ہے) میں بطور لیکچرارہو گیا۔ 1997ءمیں اسسٹنٹ پروفیسر اور2005 ءمیں پروفیسر کے منصب پر فائز ہوئے۔انہیں شاعری سے گہرا شغف رہا اور کسی زمانے میں خود بھی شعر کہے۔ ڈاکٹر شکیل اوج شعبہ علوم اسلامی کے چیئرمین رہے اور یکم فروری 2012 کو ڈین کا عہدہ سنبھالا۔جن سولہ طلبا نے آپ کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کیا، _ان میں شکیل اوج کے استاد اور سابق ڈین فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز پروفیسر غلام مہدی بھی شامل تھے۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر شکیل اوج صاحب توجہ تدریس کے ساتھ ساتھ اپنے کام میں منہمک رہے،اُن کے مضامین دنیا بھر کے ریسرچ جرنلز میں شایع ہونے لگے،ہر سال دو سال بعد کتابیں سامنے آنے لگیں۔اب تک ڈاکٹر شکیل اوج کی 15 کتابیں،82 تحقیقی مضامین اور 72 علمی مضامین شایع ہو چکے ہیں،اُن کے تحقیقی مضامین کو کراچی یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی سند کیلئے منتخب کیا اور دنیا کی سب سے بڑے اعزاز ڈاکٹر آف لٹریچر (DLE) سے سرفراز کیا۔گزشتہ ماہ 14 اگست کو حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ امتیازسے نوازا۔ڈاکٹر صاحب جامعہ کراچی کے فیکلٹی کلیہ معارفِ اسلامیہ کے رئیس (ڈین) رہے اور سیرت چیئر ،جامعہ کراچی کے ڈائریکٹر شپ بھی انہی کے حصے میں رہی۔ ڈاکٹر صاحب انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی،اسلام آباد کے بورڈ آف ٹرسٹی کے رکن اور ملایشیا سے نکلنے والے معروف ریسرچ جرنل JIHAR کے ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبر بھی تھے،انہوں نے لاتعداد ایوارڈز، شیلڈز اور گولڈ میڈل بھی حاصل کیے، اُن کی تصانیف میں خواجہ غلام فرید کے مذہبی افکار،تعبیرات،نسائیات اور افکار شگفتہ کے نام سرفہرست ہیں۔
Holy Quran
قابل ذکر بات یہ ہے کہ حافظ محمد شکیل اوج نے 2000ء میں جامعہ کراچی سے ڈاکٹریٹ آف فلاسفی (Ph.D)کی سند حاصل کی،مگر اِس دوران شکیل اوج صاحب کے نظریات و خیالات میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئیں۔آپ سر سید احمد خان کے عقائدونظریات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کہہ دیا”میں نے ان ہی سے اختلاف کرنا سیکھا،ان کے عقائد کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کچھ امور میں مجھے بھی اختلاف ہوگا( لیکن) سرسید نے کہا تھا،قرآن قول خدا ہے،اور پوری نیچر (فطرت) فعل خدا۔ قرآن نے ہمیں دعوت دی ہے کہ ہم کائنات کا مطالعہ کریں۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم فطرت کا مطالعہ کرکے خالق فطرت تک نہ پہنچیں۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اسی ہستی کا پتا دیتا ہے۔تو سرسید نے قول خدا کو فعل خدا اور فعل خدا کو قول خدا کی روشنی میں دیکھنے اور سمجھنے پر روز دیا۔اِس پر انھیں نیچری کہہ دیا گیا۔ اِس بات کی کیا تک ہے؟ ہر شخص نیچری ہوتا ہے۔ہم سب مانتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے۔“
اسی طرح مولاناامین احسن اصلاحی کے کام سے بھی متاثر دکھائی دیئے اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب”دو قرآن“ کو شاہکار کتاب قرار دیا،آنے والے دنوں میں ڈاکٹر شکیل اوج کی روشن خیالی کئی طے شدہ حدود و قیود کو پامال کرنے لگی۔مسلمان عورت کا غیر مسلم سے نکاح اور طلاق کے بارے میں اُن کے نظریات حیرت کا باعث بنے،اُن کا ماننا تھا کہ عدالت جب عورت کو طلاق کے مقدمے میں خلع کا حق دیتی ہے تو یہ عدالت کا درست فیصلہ ہوتا ہے۔شکیل اوج صاحب مسلکی تعصب اور فرقہ واریت کے مخالف تھے اور مذہبی انتہا پسندی اور خودکش حملوں کو مسلمانوں کیلئے ایک خطرناک رجحان جبکہ خودکش حملہ کرنے والے کو ایک خطرناک جرم کا مرتکب سمجھتے تھے ،آپ کبھی بھی طالبان کے موقف کے حامی نہیں رہے ۔
ڈاکٹر شکیل اوج کے تمام خیالات سے اتفا ق ممکن نہیں،مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بہت سے نئے فکری زاویئے پیش کیے اور علمی دریچے کھولے،اُن کی دقیقہ سنجی اور نکتہ رسی اکابرین سے جدا تھی،اپنی اسی طرز استنباط کی بدولت وہ اکثر ایسے نتائج پر پہنچتے،جو فقہی مسلمات سے متفق نظر نہیں آتے تھے،شاید یہی وجہ تھی کہ اُن کے کچھ مخالفین نے انہیں توہین رسالت کا ملزم قرار دیا اور اُن کے خلاف فتویٰ بھی جاری کیا۔ پولیس ذرائع کے بتاتے ہیں کہ بطور ڈین تعیناتی پر ڈاکٹر شکیل سے کچھ اساتذہ کی رنجش بھی چل رہی تھی اور مبینہ ٹاؤن تھانے میں اِس حوالے سے ایف آئی آر بھی درج ہے۔بہرحال اِس اَمر میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ پروفیسر ڈاکٹرمحمد شکیل اوج کا شمار جامعہ کراچی کے لائق اساتذہ میں ہوتا تھا، کچھ حلقے انہیں حدیث، فقہ اور سیرت نبوی پروسیع ریسرچ کا حامل قرار دیتے تھے اور علوم تفسیر قرآن میں تحقیق و تصنیف کے حوالے سے معروف نام گردانتے تھے،عجب اتفاق ہے کہ کسی بھی بنیاد پر کسی انسان کے قتل کوقابل مذمت سمجھنے والے ڈاکٹر محمد شکیل اوج خود اسی کاروائی کا نشانہ بنے۔ جمعرات18ستمبر کو خانہ فرہنگ ایران جاتے ہوئے گلشن اقبال میں دہشت گردوں نے اُن کی آواز کو ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا،اُن کا قتل علم دشمنی کی بدترین مثال ہے اور اُن کی ناگہانی موت سے علم کا ایک روشن و درخشاں باب بند ہو گیا ۔
چھوڑ جائیں گے کچھ ایسی یادیں روئیں گے ہم کو زمانے والے