برسات کا موسم اور اوپر سے بارش کی تیزی نے آج مجھے گھر سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیا اور میں گھر پر بیٹھا انٹرنیٹ پر کام کر رہا تھا۔ ٹی وی آن کیا ہوا تھا۔ یکدم میرے کان میں اسلام آباد میں فائرنگ کی خبر کی آواز آئی۔ میں نے اس خبر پر زیادہ توجہ نہ دی کیونکہ فائرنگ کا سلسلہ تو پاکستان میں ہر روز ہوتا رہتاہے مگر تھوڑی ہی دیر میں تمام ٹی وی چینل نے وہ نیوز براہ راست دکھانا شروع کر دی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص اپنی فیملی کے ساتھ اسلام آباد کی انتہائی اہم شاہراہ پر سر عام اسلحہ لیکر پھر رہا ہے اور وقفے وقفے سے فائرنگ کر رہا ہے۔ میں نے اس سین کی ایک جھلک دیکھی اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ وہ نیوز لائیو کاسٹ ہورہی تھی۔ پولیس نے اس شخص کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ اس شخص کی ہٹ دھرمی دیکھو وہ انسپکٹر رینک کے بندے سے بات کرنا پسند نہیں کر رہا تھا۔ اس اکیلے شخص نے پورے اسلام آباد کو یرغمال بنا یا ہوا تھا۔
اب تو وہ نیوز پورے پاکستان میں فلمی سین کی طرح دیکھی جارہی تھی اور محسوس بھی یہی ہورہا تھا جیسے کہ ہم کوئی فلم دیکھ رہے ہیں اور فلمی ہیرو اپنے انداز سے بڑھکیں مار رہا ہے۔ کچھ ٹائم کے بعد ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان موقع پر پہنچتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ بات چیت کے لیے وہ شخص اپنی بیوی کو بھیجتا ہے۔ اس کے بعد ایس ایس پی خود نہتے ہاتھ جاکر اس مسلح شخص سے مذاکرات کرتا ہے۔اس طرح مذاکرات کا دور کئی بار ہوا اور ہر بار مذاکرات ناکام ہی ہوئے۔ اس طرح یہ ڈرامہ کئی گھنٹے چلتا رہا۔ وہ شخص وقفے وقفے سے ہوائی فائرنگ کر کے عوام میں خوف و حراس پھیلا رہا تھا۔ عوام کا رش کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی فلم کی شوٹنگ چل رہی ہے اور عوام اس کو دیکھنے آئی ہے۔ کسی کو یہ خوف نہیں تھا کہ وہ شخص ان کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس وقت کی صورتحال کا اگرجائزہ لیا جائے تو اس اکیلے شخص نے کیپٹل کی پوری پولیس کو آگے لگایا ہوا تھا۔
میں بڑے شوق سے اس ڈرامے کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہاتھا کہ دیکھو اس کا ڈراپ سین کیا ہو گا؟ کیا یہ شخص مارا جائے گایا زندہ پکڑا جائے گا؟ کہیں عوام کو تو نقصان نہیں پہنچائے گا؟ اس شخص کو پولیس پکڑے گی یا رینجر؟ کہیں ایسا تو نہیں اس اکیلے شخص کے لیے بھی فوج کو بلایا جائیگا؟ اسی اثنا میں سوشل میڈیا پر اس ایشو پر بحث شروع ہو گئی۔ میں خود فیس بک پر آن لائن تھا اور بہت سے کالم نگار، تجزیہ نگار، سیاستدان اور میرے دوسرے دوست بھی آن لائن تھے ۔ جواپنی اپنی سوچ کے مطابق کمنٹس کررہے تھے۔ جس وقت اس شخص نے اپنا نام بتایا تو ایک دوست نے لکھا کہ انڈین فلم ”مقد ر کا سکندر” کا ہیرو ہے کیونکہ اس کا نام بھی سکندر تھا۔ کسی نے لکھا کہ یہ کوئی دہشت گرد ہے اور اس نے اپنی گاڑی بارود سے بھر رکھی ہے جس کے ڈر سے پولیس اس کے خلاف کاروائی نہیں کر رہی ہے کیونکہ وہ شخص بار بار گاڑی میں جا کر بیٹھ رہاتھا۔ کسی نے کہا کہ یہ طالبان کا ڈرامہ رچایا ہوا ہے۔ کسی نے کہا یہ مذہبی دہشگرد تنظمیوں کا بندہ ہے۔ بحر حال جو جس کے دل میں آیا اس نے وہی فیس بک کی زینت بنایا۔
Terrorism
میرے ساتھ میرے ایک دوست جو تجزیہ نگار تھے وہ اس وقت گپ شپ کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بہت دکھ کی بات ہے کہ اس وقت اسلام آباد کی پولیس ایک تماشا بنی ہوئی ہے اور پوری دنیا میں پاکستان کی رسوائی ہورہی ہے کہ اکیلے شخص نے پاکستان کے دارالحکومت کو ناکوں چنے چبوائے ہوئے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی دہشت گردی میں بدنام ہے اور رہی سہی کسر اب پوری ہو جائے گی۔ میں نے کسی حد تک اس سے اتفاق کیا کہ یہ اتنا بڑا ایشو جو بنا دیاہے اس کو تو آناًفاناً حل ہونا چاہیے تھا۔ وقت گزرتا گیا اور عوام میں اس ڈرامے کا تجسس بڑھتا گیا۔ اس دوران ایک نجی چینل نے دعویٰ کیا کہ یہ شخص ایک کالعدم تنظیم کا رکن ہے۔ پھر اسی چینل کے اینکر نے اس سکندر نامی شخص سے لائیو بات کی۔ جس نے اپنے مطالبے میں کہا کہ” میں اسلامی شریعت کا نفاذ چاہتا ہے۔”اس کا یہ مطالبہ سن ایک بار تو یہ محسوس ہوا کہ یہ ضرور کسی مذہبی گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بعد مختلف چینل نے اس سے لائیو بات کی اورہر چینل کو اس نے نئی سٹوری اور نیا مطالبہ کیا۔
کسی چینل کو کہا کہ اس کا بیٹا جیل میں ہے اس کی رہائی چاہتا ہے تو کسی کو کہا کہ یہ حکمرانوں سے نجات چاہتا ہوں اور ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتا ہوں۔ کسی سے کہا کہ میری فیملی کے ساتھ پولیس نے زیادتی کی ہے میں اس کا انصاف چاہتا ہوں۔ پھر ایک وقت آیا جب ممبر قومی اسمبلی نبیل گبول اس موقع پر پہنچے اور انہوں نے بھی اس مسلح شخص کو مذاکرات کرنے کی پیش کش کی مگر اس نے نبیل گبول سے بات کرنے کے لیے پھر اپنی بیوی کو بھیجا۔ انتظامیہ اور نبیل گبول نے اس سکندر نامی شخص کو کہا کہ وہ ہتھیار ڈال کر بات کرے مگر اس نے ہتھیار ڈالنے سے صاف انکار کر دیا۔ نبیل گبول بھی میڈیا پر اپنا بیان دیکر اور پوائنٹ سکورنگ کرکے بیٹھ گئے۔ یہ سارا ڈرامہ تقریباً ساڑھے پانچ بجے سے شروع ہوا اور اب رات کے گیا رہ بج چکے تھے مگر پاکستان کی عوام ابھی تک اس اذیت میں مبتلا تھی؟ کسی کو معلوم بھی نہیں تھا کہ اس ڈرامے میں اصل ہیرو کی انٹری بھی ہو گی۔ رات کافی کالی ہوگئی تھی۔ کالے بادلوں میں گھرے اسلام آباد کے بلیو ایریا کی سڑ ک پر جاری ڈرامے میں ایک ہیرو داخل ہوتا ہے جس کا نام زمرد خان ہے۔ وہ اس مسلح شخص کے پاس جاتا ہے اور اس کے بیوی اور بچوں سے بات کرتا ہے۔ بچوں کے پیار کرنے کے بہانے زمرد خان بھوکے شیر کی طرح اس شخص (سکندر) کو دبوچنے کے لیے جھپٹتا ہے۔
اس کو پکڑتے ہوئے زمرد خان نیچے گر گئے اور اس طرح وہ شخص ان کے ہاتھوں بچ نکلا اور ساتھ ہی اس سکندرنے فائرنگ شروع کر دی۔ زمرد خان گرتے ہوئے فائرنگ سے بچ گئے جس کے جواب میں وہاں پر موجود کمانڈوں نے اس شخص پر فائرنگ کی۔ ایک فائر اس کی ٹانگ پر لگا اور دوسرا فائر اس کے پیٹ میں جس کی وجہ سے وہ نیچے گر گیا اور انتظامیہ نے اس کو زندہ پکڑ لیا۔ اس کی بیوی بھی فائرنگ میں زخمی ہو گئی البتہ اس کے دونوں بچے محفوظ رہے۔ اس کے بعد وہاں پر موجود لوگوں نے زمرد خان کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا اور نعرے بازی شروع کر دی۔ اور ساتھ ہی میڈیا پر زمرد خان کو مبارکباد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ زمرد خان نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ”میں یہ سب کچھ ٹی وی پر دیکھ رہا تھا اور جب میں گھر سے نکلا تو یہ سوچ کر نکلاتھا کہ آج بے شک جان چلی جائے مگر اس شخص کو ضرور پکڑوں گا۔ اس ڈرامے کا ڈراپ سین تو زمرد خان نے کردیا مگر یہ ڈرامہ عوام کے ذہنوں میں چند سوالات ضرور چھوڑ گیا۔ کیا ہماری اسلام آباد پولیس اس اکیلے شخص کو قابو نہیں کرسکتی تھی؟ مسلح شخص اور اس کی بیوی مسلسل فون پر کسی سے رابطے میں تھے تو جب عام پبلک کے لیے فون سروس بند کی جا سکتی ہے تو کل اسلام آبا د کی فون سروس کیوں بند نہیں کی گئی۔
جب ایلٹ فورس اور رینجر موجود تھی تو پھر چھ گھنٹے تک یہ ڈرامہ کیوں رچایا؟ اگر وہ شخص بچوں کو ڈھال بنا رہا تھا تو ایک موقع ایسا بھی آیا۔ جب اسکی بیوی دونوں بچوں کو گاڑی سے نکال کر باہر جھاڑیوں کی طرف لیکر گئی تھی تو اس وقت کاروائی کیوں نہیں کی؟ شیر کی حکومت میں کوئی شیر یا اس کا بچہ میدان میں کیوں نہیں آیا جبکہ ویسے وہ ہر میدان میں دھاڑتے پھرتے ہیں۔ آخر اس میدان جنگ میں تیر ہی نے اپنا کام دکھایا۔ زمرد خان پر ہمیں فخر کرنا چاہیے کہ اس نے پاکستان کی عزت بچا لی اور اپنا نام بھی روشن کر لیا۔ (بشکریہ پی ایل آئی)