تحریر: امتیاز علی شاکر:لاہور الیکشن 2018ء سے قبل جمہوری باغ میں پھولوں کے کھلنے اور خوب مہکنے کاوقت ہوا چاہتا ہے، الیکشن جیت کراگلی حکومت کس کی بنے گی ؟آنے والے دنوں میں اس موضع پربحث تیزسے تیز تر ہوتی جائے گی، کئی اہم موضوعات نگران حکومتوں کی بحث وتکرار کے نیچے دب جائیں گے، جمہوریت انتہائی طاقتورنظام حکومت ہے ،کہاجاتاہے کہ پہلی عالمی جنگ دنیا کی بڑی بادشاہتوں اورشخصی حکومتوں کے طرز حکمرانی کو نگل گئی۔
دوسری عالمی جنگ میں جمہوری اتحادی حکومتوں کی جیت نے جمہوری طرزحکمرانی کی قدرواہمیت کواس قدر اجاگرکیاکہ آج دورجدیدمیں پسندیدہ اور کامیاب طرز حکومت جمہوریت ہی کوتصور کیاجاتاہے،جمہوریت بلاشبہ بہترین نظام حکومت ہے ،باشعورمعاشرے میںووٹ کی طاقت سے عام آدمی کا اپنے حکمران منتخب کرنے کااختیارہرطرح کی بد انتظامی، بدعنوانی ،ناانصافی کیلئے زہرقاتل ہے ،دکھ اس بات کاہے کہ دنیاکے کئی دیگرممالک کی طرح پاکستان میں جمہوریت آج تک اپنی اصل شکل میں رائج ہوسکی اورناہی عام آدمی اتناباشعور ہواکہ ووٹ کے حق کوذات برادری،رشتہ داری سے بالاترہوکراستعمال کرسکے، پاکستان میں جمہوریت کے ٹھیکیدارآج تک ایسی متاثرکن کارکردگی نہیں دیکھاسکے جو عوام کے حالات زندگی میں کسی طرح کی بہتری لاسکے،ماضی کی حکومتوں کوذمہ دارٹھہراکرہردورکے حکمران خود عام آدمی کوانصاف،روزگار،تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے،دورحاضرمیں جمہوریت کے علم بردارجس طرح کھل کرعام آدمی کے سامنے آئے ہیں ماضی میں اُس کی مثال نہیں ملتی،پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پاکستان مسلم لیگ نوازشریف،پاکستان تحریک انصاف اورپاکستان پیپلزپارٹی شامل ہیں پورے ملک میں اپناوجودرکھتی ہیں۔
ان تین جماعتوں کے گردباقی چھوٹی جماعتیں چکرکاٹتی ہیں جیسے کہ مولانافضل الرحمان صاحب ہرحکمران کے پہلومیں سمٹنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ جمہوریت رائج ہویاآمریت، خیرملک کے تروتازہ جمہوری گلدستے کے تین بڑے پھول پاکستان مسلم لیگ نوزشریف،پاکستان تحریک انصاف اورپاکستان پیپلزپارٹی ہیں،مہکتے پھولوں کایہ گلدستہ ملک کے کونے کونے میں اپنی جمہوری خوشبو پھیلارہاہے، تینوں پھولوں کی خوشبومکس ہوکرعوام تک پہنچ رہی ہے لہٰذاالیکشن 2018ء میں ووٹ اورسپورٹ کافیصلہ کرناعام آدمی کے بس کی بات نہیں لگتا،ان پھولوں کی تازہ خوشبوکچھ یوں کہتی ہے، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ کے لوگوں کو تکلیفیں دی ہیں، وفاق سندھ سے سوتیلے جیسا سلوک کر رہا ہے اور سندھ کے حصے کی گیس، بجلی نہیں دیتا، 20، 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، وفاقی حکومت عوام کا اعتبار کھو چکی، آج پوری دنیا گو نواز گو کا نعرہ لگا رہی ہے جبکہ اعلیٰ عدلیہ نے بھی ان کو جھوٹا قرار دے دیا ہے، نوازشریف عدلیہ کی آواز سنیں اور جلد از جلد استعفیٰ دیں،سندھ کے حقوق ملنے اور نوازشریف کے استعفیٰ تک دھرنے جاری رہیں گے۔
کچھ روزقبل مالاکنڈکے علاقہ بدرگہ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدرآصف زرداری نے ن لیگ اورتحریک انصاف کی قیادت کوکڑی تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ میاں صاحب ضیا الحق کے شاگرداورانہی کی سیاست آگے لیکرچل رہے ہیں ،شہبازشریف پختونوں کاحصہ کھارہے ہیں،لوٹاہواپیسہ ان کے پیٹ سے نکالوں گا، موجود حکمرانوں کو سی پیک کی کوئی سمجھ ہی نہیں، ہم نے سی پیک منصوبہ پورے ملک بالخصوص خیبر پختونخوااور بلوچستان کیلئے بنوایا تھاجبکہ این ایف سی ایوارڈکے ذریعے صوبوں کوحقوق دلوائے، شریف برادران نے پختونوں اور بلوچوں کے حق پر ڈاکہ ڈالا، یہ حق انکے پیٹ سے نکال کر عوام کو دونگا،ملک کے تمام وسائل پر شریف خاندان کا قبضہ ہے ، حکمران مرغی اور انڈوں سے لیکر بجلی تک کا کاروبار کررہے ہیں،انکے پاس عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے جنگلا بس کے سوا کوئی اور منصوبہ نہیں،میاں صاحب!یہ پاکستان کسی کے باپ کا ملک نہیں،اس وقت بچے بچے کی زبان پر’گو نواز گو’کا نعرہ ہے ، تم کتنے بچوں کو جیلوں میں ڈالو گے ؟، میاں صاحب جب خودجیل میں تھے تو رو رو کر انکی حالت خراب ہوگئی تھی اورپھر معافی نامہ لکھ کر جدہ کے محل چلے گئے ، جاتی امراکے بادشاہوں اوررو رو کر معافی مانگ کر باہر جانیوالوں کو غریب عوام کی کوئی فکر نہیں”قسمے،پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کے بیانات نے الیکشن 2013ء کے موسم بہارکی یادتازہ کردی ہے۔
فرق انتا ہے کہ تب وزیراعلیٰ پنجاب بجلی کی لوڈشیڈنگ پرآصف زرداری کی وفاقی حکومت کیخلاف مینارپاکستان کے مقام پردھرنادے رکھاتھا اورآج الیکشن 2018ء کے موسم بہارکے آغازپروزراعلیٰ سندھ دھرنے پرہیں، تب وزیراعلیٰ پنجاب آصف زردای کے پیٹ سے قومی دولت نکلانا چاہتے تھے اورآج آصف زرداری پختونوں کاحق کھانے والے میاں شہبازشریف کے پیٹ سے ملکی دولت نکال کرعوام پرخرچ کرناچاہتے ہیں،تیسری بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے کھلاڑی پہلی بارملک بھرمیں کھل کرکھیلنے کی پوزیشن میں آئے ہیں لہٰذاعمران خان بھی ماضی سے کہیں زیادہ سرگرم نظرآتے ہیں،پشاور میں انڈر 23 گیمز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کاکہناتھاکہ پانامہ لیکس معاملے پر خاموش رہنے کیلئے مجھے 10 ارب روپے کی پیشکش ہوئی جومیں نے قبول نہیں کی،وزیراعظم کے استعفیٰ کے معاملے پر ہمیں اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنا ہے، صرف دو مہینے کی بات ہے،نواز شریف پاناما کیس میں بری طرح پھنس چکے ہیں ان کے پاس گھر جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں، جمعہ کو عوام کو وزیراعظم کے خلاف گھروں سے نکلنا ہوگا اب گول ڈی تک پہنچ چکا ہے اور ایک کک لگانی باقی ہے،ہم عوام کی طاقت سے نواز شریف کو استعفیٰ پر مجبور کردیں گے”ایک خبرکے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کاکہناہے کہ مسلم لیگ (ن) کا چار سالہ دور شفافیت، خدمت اور دیانت سے عبارت ہے اور ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں وزیراعظم نوازشریف کی قیادت میں چار سالہ دور میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے برق رفتاری سے منصوبے مکمل کئے ہیں ،وزیراعظم نوازشریف کی قیادت میں کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کیلئے اربوں روپے کا کسان پیکیج دیا گیا ہے۔،کاشتکاروں کیلئے کھادوں کی قیمتوں کو کم کیا گیاہے اور پنجاب حکومت چھوٹے کاشتکاروں کو ایک سو ارب روپے کے بلاسود قرضے مہیا کر رہی ہے جبکہ ماضی میں اربوں روپے کے قرضے ہڑپ کئے گئے اور قومی وسائل پر ڈاکہ زنی کرکے دکھی قوم کا مال ہڑپ کیا گیا، اربوں روپے کے قرضے معاف کرانے والوں کو بھی حساب دینا ہوگا پاکستانی قوم چوری اورسینہ زوری کسی صورت برداشت نہیں کریگی، وزیراعلیٰ شہبازشریف نے مسلم لیگ (ن) کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف نے چار برس کے دوران نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے جو ترقی یافتہ، پرامن اورخوشحال پاکستان ہے، سی پیک سے بھی پاکستان کی قسمت بدل رہی ہے منصوبوں میں شفافیت عروج پر ہے، ماضی میںاربوں روپے ٹھیکوں میں ہڑپ کئے گئے جبکہ وزیراعظم نوازشریف کے دور میں ٹھیکوں میں اربوںروپے بچائے گئے ہیں۔
یہی فرق ہے وزیراعظم محمد نواز شریف اورماضی کی حکومتوں کا، آج منصوبے بروقت مکمل ہورہے ہیںاور قومی وسائل بھی بچائے جا رہے ہیں۔ماضی میں کس نے عوام کولوٹا،حال میں کون کیاکررہاہے سب کچھ عوام کے سامنے ہیں ،میڈیاکادورہے ہرلمحہ خبریں نشرہوتی رہتی ہیں،کون کتناسچ بول رہا؟کس پھول سے کتنی مہک آرہی ہے؟ماضی میں کس نے کس کے پیٹ سے ملکی دولت نکال کرعوام پرخرچ کی اورآئندہ کون کس کے پیٹ سے نکالے گایا نکال سکتاہے؟کس نے ٹھیکوں میں سے اربوں کمائے اورکس نے بروقت منصوبے مکمل کرکے بچائے،کس نے بجلی کی لوڈشیڈنگ پر سیاست کی اورکون کررہاہے؟کون انتہائی احمقانہ الزامات لگاکرسیاست چمکانے کی کوشش کرتاہے اورکون سچ کی بنیاد پرسیاست کوعبادت کادرجہ دیتاہے؟جمہوری طرز حکمرانی کے تقاضوں پرکون پوراترتاہے اورکون جمہوریت کے لبادے میں آمریب رائج کرتاہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات پاکستانی عوام کوالیکشن 2018ء سے قبل تلاش کرنے ہیں تاکہ وہ درست نمائندے منتخب کرنے کی کوشش کرسکیں،پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے الیکشن بہارپھولوں کاگلدستہ عوام کے سامنے ہے،اب فیصلہ عوام کریں گے کہ اگلی حکومت کس کی بنے گی، شیر، شکاری یا کھلاڑی۔۔۔