عائشہ اکرم آجکل میڈیا پر ہاٹ ایشو بنی ہوئی ہے تقریبا 4سو افراد نے اس کے ساتھ نہ صرف بدتمیزی کی بلکہ اسکے ساتھ بدمعاشیاں بھی کرتے رہے ہمارے نوجوانوں کے ٹھرکی پن کا آپ صرف اسی بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں جو انہوں نے اس دن عائشہ اکرم کے ساتھ کیا رہی بات ذہنی مریضوں کی انکی بھی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں ہے مردوں کے ساتھ بھی جنسی زیادتی کرتے ہوئے ہمیں کوئی شرم،خوف اور ڈر محسوس نہیں ہوتا اور عائشہ اکرم تو پھر ایک زندہ اور خوبصورت لڑکی ہے اور اوپر سے ٹک ٹاکر بھی ہے رہی سہی کسر اسکے نرسنگ کے کیریئر نے پوری کررکھی ہے ایک لحاظ سے وہ مکمل پروفیشنل لڑکی ہے جو سامنے والے بندے کی آنکھوں کے ڈورے گن کر اسکا ذہن پڑھ سکتی ہے آج کی نوجوان نسل ہم سے بہت تیزہے پیدا ہوتے ہی ٹچ موبائل اور لیپ ٹاپ نے ان کی تربیت کی اور پھر سوشل میڈیاکی لہروں پر انسانی قدروں کو پامال کرتے ہوئے یہ بچے بالغ ہوئے اور پھرجب سے یو ٹیوب،فیس بک اور ٹیوٹر نے پیسے بانٹنے شروع کیا تو تب سے ایک طوفان آیا ہوا ہے خاص کر ایسی خواتین کی بھی کثرت ہے جو پہلے اپنا جسم بیچا کرتی تھیں اور اب اپنے جسم کی نمائش کرکے لوگوں کو پھنساتی ہیں ریٹ طے ہوتا ہے اور پھر ملاقاتیں شروع ہو جاتی ہے۔
کچھ ٹک ٹاکر ہر سماجی قدروں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے کوئی نہ کوئی ایسی ویڈیو بنا کر چھوڑ رہے ہیں جس سے ہماری بدنامی بھی ہوتی ہے اور منہ کالا بھی مگر ہم اپنی ویڈیو کو وائرل کرنے کے چکر میں کوئی تمیز نہیں کررہے ہم سب کی صرف ایک ہی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح ہمارا چینل مونوٹائز ہو جائے ہماری فالورز بڑھ جائیں اور ہمارا واچ ٹائم پورا ہوجائے اس کے لیے ہمیں کسی کی جان لینا پڑے یا خود اپنی جان دینا پڑے کوئی پرواہ نہیں آج کا سوشل میڈیا اور پرانے دور کا بازار حسن تقریبا ایک جیسا ہی ہے میں خود بھی سوشل میڈیا چینل چلا رہا ہوں اس لیے تمام رموز کو سمجھتا ہوں رہی بات بازار حسن کی اسکو بھی بہت قریب سے دیکھا ہوا ہے 90کی دھائی میں مجھے ایک دوپہر کے اخبار میں بطور رپورٹر کام کرنے کا موقعہ ملاجس میں میرے پاس داتا دربار سے لیکر بازار حسن تک کا علاقہ تھا جن کی میں نے خبریں دینا ہوتی تھیں صبح کے اخبار میں رپورٹرز کو دن کے وقت کام کرنا پڑتاہے اور یہ اخبار رات 12بجے کے بعد چھپنا شروع ہوجاتے ہیں بڑے اخبارات کے ایڈیشن زیادہ ہوتے ہیں اور انکا لوکل ایڈیشن بھی صبح 2بجے تک چھپ جاتا ہے۔
جبکہ دوپر کے اخبارات کے رپورٹر رات کو کام کرتے ہیں اور صبح6بجے تک خبریں فائل کرنا ہوتی ہیں جسکے بعد تقریبا 9بجے تک یہ اخبار بھی مارکیٹ پہنچ جاتا ہے میری راتیں بھاٹی سے تھانہ ٹبی کے درمیان گذرتی تھی اس وقت بازار حسن میں ایک خوبصورت کریکٹر ماما مودا بھی ہوا کرتا تھا جس سے ہر روز ملاقات ہوتی اور بڑی دلچسپ گفتگو رہتی کچھ وقت ایک نہایت کی خوبصورت اور ملنسار انسان ایس ایچ او تھانہ ٹبی سٹی وحید اسحاق کے ساتھ بھی گذرتا اس وقت بازار حسن کے کوٹھے اور گلیاں آباد تھیں سازندے شام ڈھلتے ہی اپنے طبلے،ہارمونیم اور ڈھولیاں سیدھی کرکے منہ میں پان ڈال کر تیاری پکڑ لیتے تھے جبکہ ٹکسالی چوک سے اندر داخل ہوتے ہی دو سڑکیں ہو جاتی ہیں جن کو چیت رام روڈکہتے ہیں پر جیسے ہی کوئی اجنبی اندر داخل ہوتا تو سینما چوک کے قریب آتے آتے اسے تقریبا 50دلال ضرور مل جاتے تھے جو انہیں لڑکی،لڑکا اور تیسری جنس کے ساتھ زنا کی دعوت دیتے اکثر ہمارے دیہاتی بھائی ان کے ہتھے چڑھ جاتے اور پھر لٹ جاتے جس مقصد کے لیے پیسے دیتے وہ پورا نہ ہوتا بلکہ عین موقعہ پر جب دونوں نے کپڑے اتارے ہوتے اسی وقت تین چار افراد اندر آجاتے اور پھر اس غریب کی جامہ تلاشی لینے کے بعد پولیس کا ڈراوا دیکر اسے بھگا دیتے اگر کوئی سر پھرا ہوتا تو وہ تھانہ ٹبی سٹی پہنچ جاتا جبکہ اکثر شرفا بغیر کسی کو کوئی بتائے وہاں سے نک جاتے اور شکر کرتے کہ بچت ہوگئی اگر پولیس کے ہاتھ لگ جاتے تو بدنامی کے ساتھ ساتھ پیسے بھی مزید لگتے۔
اس وقت کے دلال پیشہ ورخواتین کے لیے سوشل میڈیا کا کردار ادا کرتے تھے جو آج کل کی لڑکیا ں ٹک ٹاک سمیت دوسری مختلف ایپلی کیشنز سے کام لے رہی ہیں اب چونکہ بازار حسن ختم ہوچکے ہیں وہاں کے سینکڑوں خاندان اب مختلف سوسائیٹیوں میں جا بسے جہاں پر انکا دھندہ پرانا ہی جاری ہے بلکہ اس میں جدت اور تیزی یہ آئی کہ دلال لوگوں نے مختلف مقامات پر کوٹھیاں اور فلیٹس کرایہ پر لے لیے کچھ لڑکیوں کو مستقل رکھ لیا اور کچھ کو آن کال دستیاب کرلیا اس وقت لاہور میں سینکڑوں اڈے چل رہے ہیں جیل روڈ نالے کے اوپر ایک پلازہ میں ایک دلال نے پورا فلور کرائے پر لے رکھا ہے جہاں اسکے پاس کالج اور یونیورسٹی کی لڑیا ں دھندہ کرنے آتی ہیں یہی لڑکیاں پھر ٹک ٹاک پر بیٹھ کر اپنے جسم کی نمائش کرتی ہے تاکہ انکے فالورز بڑھیں اور انکے بزنس میں بھی اضافہ ہو۔
اب جو کچھ مینار پاکستان پر ہوا اس پر بھی صرف شور مچایا جا رہا ہے جس سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ اگر مینار پاکستان گراونڈ میں ہجوم تھا تو سوشل میڈیا پر ہاہاکار مچانے والا بھی بے ہنگم ہجوم ہی ہے یہاں بھی بھیڑ چال پالیسی ہی چلتی ہے آپ اندازہ لگائیں کہ اس وقت پورن موویز پاکستان، افغانستان میں سب سے زیادہ دیکھی جاتی ہیں کسی کی ویڈیو لیک ہوجائے اور معلوم ہوجائے کس کے پاس ہے تو بڑے بڑے شرفاء و پارسا اُس کے انبکس میں گھسے ہوتے ہیں اور منتیں کررہے ہوتے ہیں کہ سینڈ کردو۔دوسرے لمحے ان کی پوسٹ دیکھیں تو گلہ خواتین کے کپڑوں کا کررہے ہوتے ہیں۔پی ٹی اے نے پورن سائٹ بند کررکھی ہیں لوگ وی پی این لگا کر دیکھتے ہیں اور دماغ میں ہوس بھر لیتے ہیں پھر نکالیں کہاں؟کوئی راستہ نہیں۔بہرحال پاکستان میں یوٹیوب بھی بند ہوا تھا جس ویڈیو کی وجہ سے بند ہوا تھا مسلمانوں نے وہ ویڈیو وی پی این لگا کر دیکھی ” تجسس ” جو تھا۔
یہ تجسس ہی ہوتا ہے جو پردے کے پیچھے کی چیز کو اک نظر دیکھنے کے لیے ہر طرح کا قدم اٹھانے پر مجبور کردیتا ہے اور اسی تجسس کی وجہ سے عائشہ اکرم کے ساتھ اتنا بڑا اور بھیانک واقعہ 14 اگست کے دن پیش آتا ہے جس نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے تو محترمہ 2 دن تک کیوں اس واقعے پہ چپ سادھے سکون سے بیٹھی رہیں، انسٹاگرام سے اطمینان سے پوسٹنگ بھی کرتی رہیں نہ آپ نے کچھ کہا، نہ 400 لوگوں میں سے کسی کی ویڈیوز وائرل کیں، نہ اتنے بڑے واقعے پہ کسی نے رپورٹنگ کی، نہ ہی کوئی ایف آئی آر درج کروائی گئی آخر کیوں؟ اتنے دن انتظار کیوں؟بقول آپکے اگر آپ کو 400 افراد نے تین گھنٹے تک زیادتی، مار پیٹ، چھینا جھپٹی کا نشانہ بنایا، آپکے کپڑے پھاڑے، ہوا میں اچھالا، نوچا، دبوچا تو محترمہ ان تین گھنٹوں میں 400 افراد کی اس دھکم پیل میں آپکو ایک ذرا سی کھروچ بھی نہیں آئی کیوں؟ جبکہ خاتون کے بازو یا چہرے پہ کم از کم کوئی کھروچ تو نظر آجاتی 400 آدمیوں کا آپ پر ٹوٹناکسی قیامت سے کم نہ تھا مگر آپ اللہ کے فضل وکرم سے بلکل ٹھیک ٹھاک ہو مینارِ پاکستان پہ روز سینکڑوں خواتین آتی ہیں، کئی وی لاگرز بھی آتی ہیں۔
ویڈیو بھی بناتی ہیں، تصاویریں بھی کھنچواتی ہیں وہ اپنا کام کرتی ہیں اور پرسکون چلی جاتی ہیں مگر آپ نے تواپنے تمام ٹھرکی فالورز کو بلایا ہواتھا جو آئے ہی اسی کام کے لیے تھے اور یہی وہ افراد ہے جو جنسی زیادتی کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں یہاں تک کہ قبروں سے مردہ لاشوں کو بھی نکال لاتے ہیں اس وقعہ کے بعد ٹی وی چینلز نے بھی اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے اس ایشو کو خوب اچھالا جسکے بعد ایسا محسوس ہونے لگا کہ کیا پاکستان میں گھر سے نکلنے والی ہر خاتون غیر محفوظ ہے؟ کیا سڑکوں پہ، مارکیٹوں میں، سکول، کالجز، بازاروں، تفریحی و تاریخ مقامات پر جانے والی ہر خاتون کو مردوں کی بھیڑ جا دبوچتی ہے؟ کیا سب کے ریپ ہوتے ہیں؟ہر گز نہیں پاکستان الحمدللہ محفوظ ہے۔
میں مانتا ہوں چند بھیڑیے ہوتے ہیں ہر معاشرے میں لیکن یہ کہنا کہ ہر مرد برا ہے، پورا پاکستان خواتین کے لیے غیرمحفوظ ہے یہ غلط ہے اور صرف اور صرف پاکستان کی ساکھ خراب کرنے کا ایک ڈرامہ ہے جبکہ دلال قسم کے لوگوں کی خواہش ہے کہ عورت آزاد ہو تمام مذہبی و معاشرتی حدودوقیود سے، آدھے ادھورے کپڑے پہن کر سڑکوں پہ، بازاروں میں، تفریحی و تاریخی مقامات پہ کسی کی بھی بانہوں میں بانہیں ڈال کر ناچ سکے، آزادیِ نسواں اور فیمنزم کے نام پہ خواتین چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرکے ہر رشتے سے آزاد ہو جائے ایسا ناممکن ہے کیونکہ ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہ رہے ہیں جب کوئی اپنی حدودقیود سے نکلے گا توتو پھر اسکے اثرات بھی ہونگے اور مشکلات بھی جن کا بعد میں ہم سب رونا روتے رہیں گے مگر ایک بات بڑی اہم ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آئے گی کہ ہمارے سوشل میڈیا کے خواتین اور مردصرف اسی چکر میں ہوتے ہیں کہ انکی کوئی ایک ویڈیو بھی وائرل ہو گئی تو پچھلے سبھی رونے دھونے ختم ہوجائیں اور وہ ایک نئی زندگی انجوائے کرینگے اور اسی مقصد کے لیے یوم آزادی کے دن مینار پاکستان میں یہ ڈرامہ رچایا گیا۔
اس دن مینار پاکستان گراونڈ میں ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں فیملیز کے لاکھوں افراد موجود تھے جو اپنے بال بچوں سمیت مختلف اطراف کے سبزے پر براجمان تھیں اور کھیل کود یا خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔کسی قسم کی کوئی ہڑبونگ نا تھی سب لوگ اپنی اپنی تفریح میں مگن تھے کہ اچانک ایک جانب سے ایک لڑکی برآمد ہوئی جس کے ساتھ کم از کم 20 سے 30 افراد کی پوری ایک پلٹون تھی جو اسے پروٹوکول دے رہی تھی اورانتہائی بے ہودہ انداز میں ہر طرف فلائنگ کس کرتے ہوئے مینار پاکستان کے چبوترے کی جناب بڑھ رہی تھی اور اس وقت رش کی وجہ سے مینار پاکستان گراونڈ میں اندر کے صرف گراسی پلاٹ خالی تھے البتہ وہ چبوترے والی جگہ کے اردگرد جنگلہ لگا ہوا تھا جس کے اوپر خاردار تاریں بندھی ہوئیں تھیں۔تمام فیملیز انہی گراسی پلاٹس میں بیٹھی تھیں جب کہ اندر جنگلے والے چبوترے میں حد سے زیادہ رش تھا اور وہاں صرف اور صرف منچلے لڑکے تھے جو بھاگ بھاگ کر مینار پاکستان کی بنیادوں پر بنائے گئے ان پلروں پر چڑھنا چاہ رہے تھے جو گلاب کی کھلی ہوئی کلی کی مانند چاروں طرف سے مینار کی بنیادوں کو گھیرے ہوئے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے عائشہ اکرم اس چبوترے پر جا چڑھی اور اس دوران اس پر ہر طرف سے ہوٹنگ اور آوزیں کسی جانے لگیں اس لڑکی کے چہرے پر کوئی پریشانی نہیں تھی اور وہ دانستہ طور پر چبوترے پر کھڑے لڑکوں کی سیٹیاں اور آوازیں انجوائے کرتے ہوئے مسلسل مسکرا رہی تھییہ لڑکی پچھلے کوئی دو گھنٹوں سے پورے پارک میں ادھر ادھر ناچتی پھر رہی تھی اور جہاں جاتی تو وہاں بیٹھی ہوئی فیملیز اس کی وجہ سے اچھی خاصی ڈسٹرب ہوجاتی تھی اور لوگ چھچھوری حرکتیں کرنے والی اس لڑکی کو نفرت بھری نگاہ سے دیکھتے یہ واحد لڑکی تھی جو جان بوجھ کر مردوں اور آوارہ قسم کے لڑکوں کو پیچھے لگائے واہیات حرکتیں کرنے میں مصروف تھی بیسوں لڑکوں نے اسے اپنے بازو میں جکڑ کر پورے پارک میں چکر لگوائے اب اگر اس دوران اس کے ساتھ کوئی نازیبا حرکت ہوئی ہے تو اس میں انہونی کیا ہے؟؟؟؟یار لوگ شور مچا رہے ہیں کہ اگر اس لڑکی کی غلطی بھی تھی تو کیا اس پر ایسے ٹوٹ پڑنے کا کوئی جواز بنتا ہے؟
جی بلکل بنتا ہے پبلک مقامات پر اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ آئے ہوتے ہیں اور خاص کر ٹھرکی قسم کے لوگ جو صرف بھونڈی کے چکر میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں اور ایسے موقع پر دونوں کی خواہشات کو تسکین مل جاتی ہے اگر یہ کام رضا مندی سے نہ ہو تو پھر ایسے واقعات بھی ہوجاتے ہیں جس سے انسانیت بھی شرما جائے ٹھٹھہ میں تیرہ اگست کو ایک چودہ سالہ بچی آمنہ چانڈیو مر جاتی ہے جسے اٗسی روز دفنا دیا جاتا ہے مگر اگلے روز جب مرحومہ کے گھر والے قبرستان جاتے ہیں تو قبر خالی پاتے ہیں تلاش کے بعد آمنہ چانڈیو کی لاش ایک کلو میٹر دور ایک کھیت سے ملتی ہے اور میت کے جسم پر کفن نہیں ہوتا اگلے دو روز میں پولیس اُس زانی کا سراغ لگاتی ہے اور پھر پولیس مقابلے میں مجرم رفیق چانڈیو مارا جاتا ہے کچھ نہیں کہونگاکوئی لفاظی نہیں کرونگا بس اتنا ہی کہوں گا کہ ہوس،شہرت اور پیسے کے لالچ نے ہمیں اندھا اور بہرا بنا دیا ہے ہم تمام انسانی قدروں کو اپنے پاؤں تلے روندکراپنی ہی کمزوریوں اور خامیوں کو دوسروں تک پہنچاکر خوشی محسوس کرتے ہیں جب ایسے کاموں سے تسکین حاصل کرینگے تو پھر مینار پاکستان جیسے واقعات بہت معمولی لگنے لگے گیں پنجاب پولیس محترمہ سے زیادتی کرنے والوں کو ضرور اپنے انجام تک پہنچائے کیونکہ ہمارے معاشرے اور مذہب میں خواتین کا احترام اور عزت و تکریم بنیادی اہمیت رکھتی ہے لیکن محترمہ سے بھی پوچھا جائے کہ اصل کہانی کیا ہے اس کے مقاصد کیاتھے؟ ملک و قوم کی عزت داؤ پر لگانا بھی ایک گھناؤنا جرم ہے اور آخر میں ایک اور بات کہ کینیڈین روزی گیبریل بھی ایک عورت تھی پورا پاکستان اکیلے گھومتی رہی ہے، لوگوں نے مفت بائیک ٹھیک کرکے دیا جہاں گئیں کھانے کے پیسے نہیں لیے گئے لوگوں نے اپنے گھروں میں فری رہائش دی 400 کیا پورے ملک میں سے کسی ایک نے بھی بری آنکھ سے نہیں دیکھا کیونکہ اس نے بے حیا لوگوں کو اپنا فین نہیں بنایا تھا خدارا پاکستانی معاشرے کے مردوں کو اس طرح سے رسوا نہ کریں کچھ ان بے ہودہ ٹک ٹاکروں کو بھی راہ راست دکھائیں کیوں ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے معاشرے کو بدنام کرنے پر تلے ہوے ہیں کب ہم ایک قوم جیسا رویہ کریں گے۔