ٹائم بینک کا نام سن کر آپ یقینا چونک گئے ہوں گے جہاں کرنسی نوٹوں کی طرح اب وقت کو ڈیپازٹ کروانا بھی ممکن ہو گیا ہے ایک چینی طالب علم کی کہانی پڑھی تو میں بھی حیران بلکہ پریشان ہوگیا کہ دنیا کیا سے کیا ہوگئی اور ہم ابھی تک دقیانوسی خیالات کے ساتھ مہنگائی کا رونا رونے سے باہر نہیں نکلے بہرحال چینی طالب علم کا کہنا ہے۔
”جب میں سوئٹرز لینڈ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، تب میں نے اسکول کے قریب ایک مکان کرایہ پر لیا۔ اس مکان کی مالکن ”کرسٹینا” تھی، جو اپنی عمر کی سڑسٹھ بہاریں اب تک دیکھ چکی تھی۔ اب وہ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہی تھی، اس سے پہلے وہ ایک سیکنڈری اسکول میں استانی تھی۔ سوئٹزرلینڈ کی پنشن بہت اچھی ہے ، جس کی وجہ سے اس کے حامل کو اپنی زندگی کے بقیہ سالوں میں کھانے پینے اور سر چھپانے کے لیے ٹھکانے کی زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اپنی ماہانہ پنشن پر بآسانی گزر بسر کر سکتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ میری مالک مکان کام کرنے کی بہت شوقین تھی۔ وہ ایک ستاسی سالہ بوڑھی عورت کی خدمت اور دیکھ بھال کر رہی تھی۔
میں نے ایک دن اس سے پوچھ لیا کہ کیا آپ پیسہ کمانے کے لئے کام کر رہی ہو؟ اس کے جواب نے مجھے حیرت میں مبتلا کر دیا: میں پیسہ کمانے کے لئے کام نہیں کرتی، بلکہ میں اپنا وقت ”ٹائم بینک” میں جمع کرتی ہوں، تاکہ جب میں بڑھاپے میں اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے سے قاصر ہو جاؤں اور کام کاج نہ کر سکوں تومیں اسے واپس لے سکوں۔ میں نے پہلی بار ”ٹائم بینک” کے اس تصور کے بارے میں سنا تو میرے تجسس میں اضافہ ہوا اور میں مالکن سے مزید جاننے کی کوشش کی۔ دراصل ”ٹائم بینک” ایک پرانا پنشن پروگرام تھا، جسے سوئس وفاقی وزارت برائے سوشل سیکیورٹی نے متعارف کروایا تھا کہ جوانی میں لوگ بوڑھوں کی دیکھ بھال کرکے اپنے وقت کو محفوظ کریں اور جب وہ بوڑھے ہو جائیں، وہ بیمار ہو جائیں یا انہیں دیکھ بھال کی ضرورت ہو تو وہ اسے واپس لے سکتے ہیں۔ ٹائم بینک کے لئے درخواست جمع کروانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحت مند ہو، خیرخواہی کا جذبہ رکھتا ہو اور خوش اخلاقی سے بات کر سکتا ہو۔
جب درخواست منظور ہو جاتی ہے تو اسے ہر روز ان بزرگوں کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے، جنہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح یہ خدمات کے اوقات سوشل سیکیورٹی سسٹم میں درج کیے گئے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کر دیے جاتے ہیں۔ میرے کرایے کے مکان کی مالکن ہفتے میں دو دن کام پر جاتی تھی اور وہ دو گھنٹے بڑھیا کی مدد کرتی تھی، اس کے لیے خریداری کرتی تھی، اس کے گھر اور کمرے کی صفائی کرتی تھی، اسے دھوپ کے لیے باہر لے جاتی تھی اور ان کی عیادت کرتی تھی۔ معاہدے کے مطابق اس کی خدمت کے ایک سال بعد ”ٹائم بینک” اس کے کام کے اوقات کا حساب کتاب کرے گا اور اسے ”ٹائم بینک کارڈ”جاری کرے گا۔ جب اسے کسی کی دیکھ بھال کی ضرورت ہوگی تو وہ اپنا ”ٹائم بینک کارڈ” استعمال کرنے کیلئے اپلائی کرے گی۔
معلومات کی تصدیق کے بعد ”ٹائم بینک” دوسرے رضاکاروں کوہسپتال یا اس کے گھر میں اس کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ذمہ داری تفویض کرے گا۔ ایک دن میں اسکول میں تھا اور مالکن نے فون کیا کہ وہ اپنے کمرے کی کھڑکی صاف کرنے کے دوران اسٹول سے گر گئی ہے۔ میں نے جلدی سے چھٹی لی اور اسے علاج کے لیے ہسپتال لے گیا۔ ٹیسٹ اور ایکسرے کے بعد معلوم ہوا کہ اس کا ٹخنہ ٹوٹ چکا اور اسے علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کر لیا گیا۔ مجھے روزانہ اسکول جانا پڑتا تھا، اس لیے میں پریشان تھا کہ اب اس کی دیکھ بھال کون کرے گا۔ اس کے لیے میں ابھی ایک شخص کو ہائر کرنے کے لیے اپلائی کی تیاری ہی کر رہا تھا کہ وہ میری پریشانی بھانپ گئی۔ اس نے کہا کہ آپ کو زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس نے ”ٹائم بینک” کو موجودہ صورت حال کی درخواست پہلے ہی جمع کرا دی ہے۔ دو گھنٹے کا وقت گزرا نہیں ہوگا کہ ایک نرسنگ ورکر ہسپتال کے کمرے میں داخل ہوئی، جسے اس عورت کی دیکھ بھال کے لیے ٹائم بینک نے بھیجا تھا۔ ایک مہینے تک وہ نرسنگ ورکر اس مالکن کی دیکھ بھال کرنے کے لیے روزانہ آتی۔ اس کے ساتھ گپ شپ کرتی۔ اس کی بیمار پرسی کرتی اور اس کے لیے کھانا بناتی۔
دیکھ بھال کے اتنے موثر سسٹم کی وجہ سے بہت جلد وہ عورت صحت یاب ہو گئی۔ جب مالکن تندرست ہوگئی تو پھر اس نے اپنا کام شروع کر دیا۔ وہ ہفتے دو روز خدمت کے لیے جاتی اور اپنا وقت ٹائم بینک میں جمع کرواتی اور وہ مجھے کہا کرتی تھی کہ وہ اپنے تندرستی کے ایام میں ٹائم بینک میں زیادہ سے زیادہ اپنا وقت جمع کروانا چاہتی ہے۔ ‘ یہ ایک چینی طالب علم کا ٹائم بینک Time Bank)) کے بارے میں مشاہدہ ہے، جو سوئزرلینڈ میں زیرتعلیم تھا۔ آج سوئٹزرلینڈ میں بوڑھے اور ضرورت مند لوگوں کی دیکھ بھال اور مدد کے لئے ”ٹائم بینک” کا استعمال ایک عام معمول بن گیاہے، اس سے نہ صرف ملک میں پنشن کے اخراجات کی بچت ہوتی ہے، بلکہ دیگر معاشرتی مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں۔ ”سوئس پنشن آرگنائزیشن” نے سروے کیا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ آدھے سے زیادہ سوئس کے باسی بھی اس قسم کے پروگرام میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔
جہاں مغربی ممالک میں اولڈ ہومز کا رواج عام ہے، وہاں ہمارے وطن عزیز میں بھی اولڈ ہومز بننے شروع ہو گئے ہیں۔ نفسا نفسی کا عالم ہے، ہر ایک اپنے آپ میں کھویا ہوا ہے۔ بچے بزنس میں مصروف ہو کر اپنے والدین کی دیکھ بھال نہیں کرتے۔ پڑوسی اپنے ہم سائے سے غافل ہیں۔ ایسی صورت حال میں ایسا کوئی نظام ہونا چاہیے، تاکہ آپ اپنی جوانی اور تندرستی میں کسی ضرورت مند اور بیمار کی دیکھ بھال کریں۔ جب کبھی آپ حاجت مند ہوں یا بیمار ہوں تو کوئی تو آپ کی خدمت اور نگہداشت کے لئے تیار ہو۔
بطورِ مسلمان ہمیں انسانیت کی خدمت کا درس دیا گیا ہے۔ ہمیں اخلاص کے ساتھ اپنے ہمسایوں اور ضرورت مند ملازمین کی خدمت اور اپنے آس پاس بیمار لوگوں کی عیادت اور دیکھ بھال کے لیے دوتین گھنٹے نکالنے چاہیے، تاکہ جب ہم پر برا وقت آئے تو مصیبت میں کام آنے والا ہمارے لئے بھی کوئی موجود ہو۔