تحریر : محمد امجد خان گزشتہ روز ایک نجی فلاحی تنظیم کے سربراہ کے ہمرا ہ سیلاب متاثرہ ایک دیہات کے وِزٹ کا اتفاق ہوا وہاں لوگوں کے گھر مسمار، فصلیں تباہ، مویشی بیمار اور خود بچارے بھوک پیاس سے بِلک رہے تھے ہمارے وہاں پہنچنے پر انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا ہر ایک نے اپنے پاس بٹھانے کی بڑی کوشش کی مگر وقت کی قلت کے سبب ہم زیادہ دیر کسی کے پاس بھی نہ رُک سکے اور اپنی حیثیت کے مطابق اُن کی جو مدد کر سکتے تھے کرتے گئے اور جب گائوں کے درمیان پہنچے تو وہاں ایک کافی چوڑی مگر کچی سڑک پائی جس کے دونوں اطراف لوگوں کے مویشی بندھے ہوئے تھے اور درمیان میں جو خشک جگہ بچی تھی وہاں چھوٹے چھوٹے بچے کرکٹ کھیل رہے تھے یہ بالکل ننگے اورسیلاب کی تباہ کاریوں وبھوک افلاس ،یا اپنے والدین کے حالات سے بے خبر اپنے کھیل میں مگن تھے۔
خیر ہم وہاں سے گزر گئے اور کچھ ہی دیر بعد جب واپسی پر وہاں سے گزرنے لگے تو ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ایک نے بال ہِٹ کیا اور دوسرے کے پکڑنے سے قبل ہی وہ قریب سے گزرتے ہوئے نالے میں جا گرا ،اور جس بچے کا وہ بال تھا وہ چلاتا ہوا( میری بال گئی میری بال گئی ) بال کے پیچھے بھاگ گیا جبکہ جس کی باری تھی وہ دوسرے سے کہتا کہ یار یہ بال توگئی چلو نادر کے پاس چلتے ہیں میرے پاس پانچ روپے ہیں یہ دے کر اُس سے کرائے پر بال لے آتے ہیں ان پانچ میں پورا دِن کھیلیں گے اور کل واپس کر دیں گے،یہ کرکٹ کا کھیل وہاں کھیل تو حقیقت میں بچے ہی رہے تھے مگر لگ یوں رہا تھا جیسے عمران خان اپنا موجودہ کھیل کھیل رہے ہوں،کیونکہ اُنہیں بھی کسی کی کوئی فکر نہیں کوئی سیلاب میں ڈوب مرے یا بھوکا پیاسا، ملکی معیشیت کی تباہی کے سبب چاہے کسی کے تن پہ کپڑا رہے یا نہ رہے اُسے اپنا کھیل پیار ا ہے جس میں عوام اُن کیلئے شاید ایک کھلونا(گیند) ہے جو سیلاب میں بہہ گیا تو کرائے پر لے لیں گے اگر ٹوٹ گیا تو نیا خرید لیں گے اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر وہ اب میڈیا کی شدید ترین تنقید کے سبب متاثرین کے پیچھے جانے ہی لگے ہیں تو وہ بھی اِن کے دُکھ بانٹنے کیلئے نہیں جارہے۔
بلکہ ٹشو پیپر کی طرح اُنہیںاستعمال کرنے کیلئے اُن کے برین واش کرنے کی غرض سے جارہے ہیںمگر جو لوگ ووٹ کی قدر جانتے ہیں وہ اسے اپنے بازو اوراپنی طاقت سمجھتے ہوئے اِن کی رائے کی جہاں قدر کرتے ہیں وہاں وہ اس کی سلامتی کی ڈھیر ساری دعائوں کے ساتھ اس کی حفاظت کیلئے بھی ہمہ وقت کوشاں ہیں،مگر جو اسے کھلونا سمجھتے ہیں وہ اپنے کھیل میں مگن ہیں جسے وہ اُس وقت تک جاری رکھیںگے جب تک اُن کا اصل مطالبہ پورا نہیں ہوجاتا اور اصل مطالبہ نہ الیکشن کی شفافیت ہے نہ جمہوریت کی حقیقیت ہے ،نہ کرپشن کا خاتمہ ہے اور نہ ہی صرف وزیرِ اعظم کا ستعفیٰ ہے وزیرِ اعظم کے استعفے کا مطالبہ تو صرف اصل مطالبے کو چھپانے کیلئے کیا جارہا ہے کیونکہ اصل مطالبے کی صرف کڑیاں ہی مشرف سے نہیں ملتی بلکہ مطالبہ ہی مشرف ہے اور مشرف کی سپورٹ کرنے والا جمہوریت پسند طاقتوں کو زہر قاتل لگتا ہے۔
Protest
جبکہ دھرنا گروپ کو وہ جان سے بھی زیادہ عزیز ہے، کیونکہ مشرف صاحب نے اپنے دورِ حکومت میں ان (دھرنا گروپ) کی سیاسی و سماجی پرورش کرکے انہیں جوان کیا ہے لہذا تخلیق کار یا پرورش کرنے والاہر کسی کو ہی جان سے عزیز ہوتا ہے، جیسے ہمیں ہمارے والدین عزیز ہیں لہذا اِن کے ہوتے ہوئے بھی مشرف پربرا وقت آئے تو کیوں آئے جوکہ آن پڑا ہے جس کے ذمہ دار بھی مشرف کو یہی لگ رہے ہیں کیونکہ اِنہوں نے مشرف کو سبز باغ دکھا کر واپس تو بلا لیا مگر گزشتہ حکومت کے مشرف کو محفوظ راستہ دینے کے کئے گئے معاہدے پرموجودہ حکومت سے عمل نہ کروا سکے جس کے سبب جہاں انہیں مشرف سے سخت شرمندگی کا سامنا ہے وہاں مشرف کی حامی اندرونی و بیرونی طاقتوں کے بھی شدید ترین دبائو کا سامنا ہے اور وہی دھرناگروپ کے اس کھیل کے اخراجات افورڈ کر رہی ہیں مگر(ن) لیگ کے ہوتے ہوئے مشرف کو محفوظ راستہ کسی بھی قیمت پر نہ مِلتا دیکھ کر اطلاعات کے مطابق مجبوراْ انہیں مئی 2014میں لندن جا کر (ن)لیگ کے مکمل خاتمے کی حکمت عملی تیار کرنے کیلئے ایک میٹنگ کرنا پڑی گئی جس کے نتیجہ میں ہونے والی منصوبہ بندی پر عمل کے کام کو کچھ دِنو کیلئے اس لئے پینڈگ چھوڑ دیا گیا۔
تاکہ کسی کو شک نہ ہو،مگر شیخ صاحب سے جب نہ رہا گیا تو انہوں نے ایک نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے اس منصوبہ بندی کے تحت متعلقہ حدف تک پہنچنے کیلئے دی جانے والی قربانی کا قربانی سے پہلے ہی اِن الفاظ میں ذکرکر دیا کہ عید قربان سے پہلے ایک بڑی قربانی ہو گی جوکہ سانحہ ماڈل ٹائون کی صورت میں عید قربان سے پہلے واقع ہی قربانی ہو گئی جس کے بعد اب عوام کے شک کرنے پر کبھی وہ کہتے ہیں کہ میاں صاحب کی قربانی ہوگی تو کبھی کہتے ہیں کہ خان صاحب قربان ہونگے اور ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا جا رہا ہے جس کی ایف آئی آر بھی اُن کی مرضی کے مطابق ہوگئی مگر استعفے کے مطالبے سے وہ پھر بھی باز نہیں آئے۔
کیونکہ مشرف حکومت کے مکمل خاتمے کے بغیر اپنے کیئے کی سزاپانے سے بچ نہیں سکتا ورنہ کراچی میں بھی تو ایک عرصہ سے ہر روز کی درجنوں کے حساب سے نعشیں گر تی چلی آرہی ہیںکیا وہ پاکستانی شہری نہیں اُن کی وجہ سے تو آج تک نہ کسی نے دھرنا دیا نہ استعفیٰ مانگا ہے اوردوسری بات یہ کہ سانحہ ماڈل ٹائون جیسا ہی ایک سانحہ لال مسجدبھی تو پیش آیا تھاجب پرویز الٰہی صاحب پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ تھے اُس وقت انسانی حقوق کے علمبردار،1973کے آئین کی تشریح کرنے والے الیکشن کمیشن کی شفافیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے میڈیا کو گالیاں دینے والے ،عدلیہ کو ناجانے کیا کیا کہنے والے، عوامی نمائندوں کو چور ڈاکوکہنے والے، عمران خان، طاہر القادری، شیخ رشید، چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی ودیگر کہا ں تھے اُس وقت تو سینکڑوں کے حساب سے لاشیں گر رہی تھیں جن کی صحیح تعداد کا آج تک اندازہ نہیں ہو سکا اُس وقت کسی نے کیوں نہ آواز اُٹھائی، اُس وقت کسی نے کیوں نہ دھرنا دیا اُس وقت کسی نے کیوں نہ استعفیٰ مانگا گیا لہذا دھرناگروپ کا اصل مقصد مشرف کو بچانے کے علاوہ اور کچھ نہیںہو سکتا، جو کہ آزادی حقِ رائے و جمہوریت پسندقوتوں اورقانون کی حکمرانی کا خاتمے ہوئے بغیر ممکن نہیں لگتا۔
Muhammad Amjad
تحریر : محمد امجد خان Email:Pardahchaak@gmail.com Mobe No:0343 6999818