تحریر : محمد اشفاق راجا امریکہ میں کانگریس کے اندر اور باہر بھارتی لابی کے زیر اثر اگرچہ ایسے عناصر موجود ہیں جو ہر وقت اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں رکاوٹیں پیدا کی جائیں لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے تعلقات غیر معمولی طور پر دباؤ میں نہیں ہیں۔ چند ماہ قبل جب امریکہ نے پاکستان کو آٹھ ایف 16 طیارے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو بھارت نے اس پر احتجاج کیا تھا۔ دو مرتبہ بھارت میں امریکی سفیر کو بلا کر اس فیصلے پر احتجاج کیا گیا تاہم اوباما ا نتطامیہ نے ہر بار بھارت کا یہ احتجاج مسترد کردیا کہ ایف 16 طیارے بھارت کے خلاف استعمال ہوں گے۔ امریکہ نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ یہ طیارے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مطلوب ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کی جنگ میں کسی بھی ملک سے زیادہ نقصان اٹھایا۔ نائن الیون کے واقعہ کے ایک ماہ بعد امریکہ نے افغانستان پر فضائی حملہ کردیا تھا۔
پاکستان کے اس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کو ہر وہ سہولت بہم پہنچائی جو امریکہ نے طلب کی، حتیٰ کہ پاکستان نے امریکہ کے بعض ایسے مطالبات بھی مان لئے جن کے بارے میں خود امریکیوں کو یہ یقین نہیں تھا کہ پاکستان انہیں مان لے گا۔ امریکہ نے افغانستان میں طالبان کی حکومت تو ختم کردی، وہاں اپنی اور نیٹو کی افواج بھی اتار دیں لیکن دہشت گردی کی اس جنگ کا سارا ملبہ براہ راست پاکستان پر گرا، اس دوران کئی ایسے مواقع آئے جب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے۔ پاکستان نے اگرچہ دہشت گردی کی اس جنگ میں اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا تاہم امریکیوں کے بعض حلقوں میں شکوک و شبہات بھی جنم لیتے رہے اور آج تک ان کے دلوں میں نئے سے نئے وساوس جنم لیتے رہتے ہیں۔ گزشتہ روز ”نیویارک ٹائمز” نے اپنے اداریئے میں پاکستان کے متعلق جو شکوک و شبہات ظاہر کئے تھے وہ ایسے ہی حلقوں میں جنم لیتے رہتے ہیں۔
دو روز قبل مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے سینیٹ میں کہا تھا کہ گزشتہ تین ماہ سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری چل رہی ہے کیونکہ پاکستان ڈاکٹر شکیل آفریدی، حقانی نیٹ ورک اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکہ کے بعض مطالبات تسلیم کرنا اپنے قومی مفاد کے خلاف تصور کرتا ہے۔ ایف 16 طیاروں کی فروخت کو بھی نقد ادائیگی سے مشروط کرنے پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ایک دھچکا لگا ہے تاہم امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان جان کربی کا خیال ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بعض اوقات پیچیدگی بھی اختیار کرلیتے ہیں تاہم امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔
F16 Aircraft
امریکی ترجمان کے مطابق تعلقات میں تازہ پیچیدگی ایف 16 طیاروں کی فروخت کے سلسلے میں پیدا ہوئی ہے جسے کانگریس کی مداخلت کی وجہ سے تمام پیشگی ادائیگی سے مشروط کردیا گیا ہے۔ جان کربی کا یہ کہنا درست ہے ”ہر مسئلے پر ہمارا پاکستان کے ساتھ اتفاق نہیں ہے”۔ یہ ایسی بات ہے جو قرین حقیقت بھی ہے کیونکہ ملکوں کے تعلقات ان کے مفادات کے طابع ہوتے ہیں اور ان میں اونچ نیچ بھی آتی رہتی ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی سے دو ملک ہر وقت اور ہر لمحے ہر مسئلے پر متفق ہوں تاہم مشکلات کے باوجود اگر امریکی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں اور اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں تو کامیاب ڈپلومیسی کا تقاضا یہی ہے کہ تعلقات میں زیادہ بگاڑ نہ آنے دیا جائے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے اور مشکلات کے باوجود دونوں ملکوں کے تعلقات آگے ہی بڑھتے رہے ہیں البتہ بعض امور پر امریکہ اپنے مفادات کو مختلف نقطہ نظر سے دیکھتا ہے اور پاکستان کا خیال مختلف ہوسکتا ہے۔
لیکن عمومی طور پر امریکہ نے کئی مواقع پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بڑی اہمیت دی ہے۔ 1971ء کے بحران میں امریکہ نے بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کو مغربی پاکستان پر حملے سے باز رکھا، اندرا گاندھی مشرقی پاکستان پر قبضے کے بعد مغربی پاکستان میں جنگ جاری رکھنے پر تلی ہوئی تھیں اور اگر امریکی صدر نکسن اس پر سخت مؤقف اختیار نہ کرتے اور اندرا گاندھی کو سخت پیغام نہ بھیجتے تو جنگ مغربی پاکستان تک وسیع ہو جاتی۔ صدر نکسن نے اپنی یادداشتوں میں جو کافی عرصہ پہلے شائع ہوچکی ہیں ان حالات کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں پاکستان اور امریکہ کے مفادات ایک ہیں اس لئے دونوں ملک مل کر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ کسی دہشت گرد گروہ کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرے گا۔ امریکہ پاکستان کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہتے ہوئے اپنا کام جاری رکھے۔
امریکہ کے ساتھ تعلقات کے پس منظر میں پاکستان کو بہتری کیلئے کوششیں کرتے رہنا چاہئے۔ ایف 16 طیاروں کا معاملہ ایسا ہے جو اب بھی کسی نہ کسی طرح حل ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھی اپنی تقریر میں اس جانب اشارہ کیا تھا سفارتی حلقوں کے مطابق ایسے امکانات موجود ہیں کہ امریکہ پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فروخت کے ضمن میں فوری کیش کی شرط ختم کرکے کانگریس کو اس بات پر رضامند کرلے کہ پاکستان کو جو فوجی امداد دی جائے گی ایف 16 طیاروں کی قیمت ان میں سے ادا کردی جائے گی۔