کیا ہی بدنصیبی ہے اس قوم کی کہ جہاں بیٹیاں محفوظ نہ رہیں ، مائیں ہر گھنٹے میں بیدردی سے قتل کر دی جائیں ، بہنیں جلا کر راکھ کر دی جائیں ۔ بچیاں پالنے ہی میں ریپ کر کر کے دفنا دی جائیں۔
ان کے قاتل اور بربادی کے ذمہ داران کو مدعی بنکر یا معافی نامے کی سطروں کے عوض سودے بازی کر کے چھوڑ دیا جائے ۔ ایسے ہی چھوڑے جانے والے لوگ ہمارے ہاں اپنے ہی رشتوں کے لیئے، پڑوسیوں کے لیئے، ملنے والوں کے لیئے ایک ٹائم بم کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔
ان کو یوں معاشرے میں چھوڑ دینا گویا اپنے آپ کو کسی خود کش بمبار کے حوالے کر دینے جیسا ہے جو کبھی بھی ، کہیں بھی پھٹ سکتے ہیں اور اپنے ساتھ بہت سی جانیں کسی بھی بہانے لے سکتے ہیں ۔ ایسے افرادجو ایک بار قتل اور ذیادتی جیسے واقعات میں ملوث ہو چکے ہوتے ہیں وہ دوبارہ زندگی بھر کبھی بھی نہ تو قابل اعتبار رہ سکتے ہیں اور نہ ہی نارمل ۔
نفسیاتی طور پر ہلے ہوئے یہ لوگ اپنے اندر کی شیطان کو راضی کرنے کے لیئے کسی نہ کسی کی عزت یا زندگی کی بلی دینے کو شکار کی تلاش میں رہتے ہیں ۔
ایسے میں جب نو سال کی بچی کو سنگسار کر کے مار ڈالا جائے ،
کہیں اپنی بیوی کے پیسے خرچ کر دینے والا باپ اس بات کو چھپانے کے لیئے اپنی ہی چھ سال کی مصوم بیٹی کو بلی کا بکرا بنا کر قتل کر دے ،صرف اسے ڈکیتی کا رنگ دینے کے لیئے۔۔۔
جہاں بہنوں کی جائیداد کے حصے ہڑپ کرنے کے لیئے اس کے کردار کی دھجیاں اڑانے بھائی ان کے مال پر عیش کرنے کے لیئے ان پر تہمتوں کے پہاڑ توڑ کر ان کے کردار کو قتل کر رہا ہو ، ان حالات میں
پاکستان میں سزائے موت کے قانون پر فوری نفاذ کی جس قدر ضرورت ہے وہ شاید کسی اور ملک میں نہ ہو ۔
خدا کے سوا کون ہے جسے انسانی جان یا عزت کے لینے کا اختیار ہے ؟ تو یہ کام اپنے ہاتھوں میں لینے والے مجرمان کو خدائی قانون کے تحت بھی قتل کیا جانا چاہیئے اور انسانیت کے قانون کے تحت بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جانا چاہیئے تاکہ اس معاشرے سے بے حسی اور سنگدلی کی بیخ کنی کی جا سکے۔
معاشرے کو محفوظ بنانا جن قانون دانوں اور منصفین کا ذمہ ہے انہیں آنکھیں کھولنے اور ہوش میں آنے کی ضرورت ہے کہ وہ ان قوانین پر عمل درامد کو یقینی بنائیں جنہیں سالہا سالہا سے قانون اور دستور کی کتابوں میں دفن کیا گیا ہے۔
ان مردوں کو ذندہ کیجیئے اس دن سے پہلے کہ جس روز ہمارے مردے حساب کیلیئے ذندہ کر دیئے جائیں۔