تحریر: شاہ بانو میر انسان ساری عمر کوشش کر کے خود کو دنیا میں ممتاز بناتا ہے کئی لوگوں کو گراتا ہے کئی لوگوں کو تباہ کرتا ہے اور اپنی کامیابی کیلئے ہر کسی کو روندتا ہوا آگے بڑہتا ہے کیوں؟ کہ یہی قانون مقرر ہے اس فانی دنیا کا جس میں عمر عزیز کی کمی ہمیں ہوسَ اقتدار میں مبتلا کر دیتی ہے خواہ وہ اقتدار کامیابی کسی نوعیت کی بھی ہو۔
لیکن ایک بات جو انسان فراموش کر چکا ہے وہ یہ ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ تو “” القلم “” لاکھوں کروڑوں سال پہلے اسکی تقدیر کو لکھ کر محفوظ کر چکا ہے ‘ اس وقت تو اس کے سوچنے کی پریشان ہونے کی یہ بات تھی کہ دنیا کے اربوں کھربوں کرداروں میں اس کے لئے اس کے رب نے کونسا کردار چنا ہے اچھائی کا یا بدی کا؟ کامیابی ملنے کو وہ اپنی ذاتی محنت سمجھتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٍ نے یہ سب کچھ لوح محفوظ میں لکھ کر محفوظ کر دیا ہوا ہے اس میں اس غافل کی کوئی رائے نہیں کوئی پرواہ نہیں اس بے نیاز کو وقت کو قدرت نے ایک مقنا طیس کی صورت ہمارے ساتھ باندھ دیا ہم جیسے لاکھوں کروڑوں آئے اور چلے گئے وقت وہیں رہا لیکن اس مقناطیس کے ساتھ جڑے ہوئے خوبصورت بہترین بھی اور بد ہئیت بد صورت اس سے چَپکے رہ گئے۔
باوجود صدیاں گزرنے کے بھی ہم تک کسی نہ کسی صورتے پہنچا دئے گئے کہیں کتابوں کے ذریعے کہیں زمین سے سیکڑوں فٹ گہرائی میں کہیں چٹانوں کے پتھریلے وجود میں مقید قوی ہیکل وجود کہیں آسمان کی وسعتوں کو چیرتے ہوئے انسانی ہتھیار معلومات کا خزانہ ازروئے اللہ ہم تک اس وقت نےئ کسی نہ کسی طرح پہنچا دیا ‘ کسی سیانے سے کسی نے کہا ا ہے کہ آپ نے فلاں وقت میں اپنے ساتھ ہوئی زیادتی پر احتجاج کیوں نہیں کیا؟ جواب میں وہ سیانا مُسکرا کر کہتا ہے کہ وقت کا مقناطیس اور اللہ کا حکم حق کو آنا ہے اور باطل کو جانا ہے خواہ باطل کتنا ہی پھیلاؤ میں کیوں نہ ہو اور حق کتنا ہی ناتواں کیوں نہ ہو لہٍذا وقت کا مقنا طیس خود بخود تمام معاملات کو درست سمت میں لا کر چسپاں کر دے گا اور وہی فیصلہ دیکھنے کا ماننے کا اور اس سے نصیحت پکڑنے کا وقت ہوگا جب آپ دیکھتے ہیں۔
Time
کہ وقت کی چھلنی میں سے تمام لوگ چھن چھن کر باہر گرتے جاتے ہیں لیکن آخر میں وہی لوگ رہ جائیں گے گرے پوؤں میں اور چھلنی میں موجود جو دو قسم کے گروہ ہوں گے گرائے جانے والے وہ جو حق پر ہوں گے مگر طاقتَ پرواز نہیں رکھتا اور چھلنی میں بلندی پر موجود وہ لوگ جو اس متاع قلیل یعنی دنیا کے رموز سے بخوبی آگاہ تھے لہذا اپنے تئیں دوسروں کو گرا کر خود کو کامیاب دکھانے میں بظاہر کامیاب ہوئے یہی وقت کا مقنا طیس ہے جس جیت کو وہ جیت سمجھ رہے ہیں ان کی اصل ہار ہے کہ وہ خود اپنی محنت جدو جہد سے اس گروہ میں جا کر نمایاں ہو گئے جو باطل سوچ کا پیروکار ہے یہی۔
کامیابی ہے حق پر چلنے والوں کی وہ وقتی طور پے گرے ضرور لیکن اپنا تشخ برقرار رکھا انہوں نے اپنے گروہ کے ساتھ موجود رہے بَکے نہیں مقناطیس کی یہی تاثیر ہے ناں کششَ ثقلکی مانند کہ ہر اوپر سے گرائی جانے والی چیز کو سیدھا زمین اپنی جانب کھینچتی ہے اسی طرح وقت کا مقنا طیس خود بخود وہ عوامل پیدا کر دیتا ہے جو ایک انسان کو اس کے اصل تک پہنچا دیتا ہے اور آخر میں وہیں پایا جاتا ہے جو اس کے ساتھ اس مقنا طیس سے چپکا دئے گئے ہیں جو خود اسکی اپنی پسند تھے اس کی سوچ اس کے عمل کا رد عمل اسکے ساتھی جن کے درمیان وہ دکھائی دیتا ہے اسی کو فرقان (حق اور باطل کے درمیان فرق کرنا کہتے ہیں ) یا عام لفظوں میں وقت کا مقناطیس۔