تحریر : سید توقیر زیدی مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ اگر عمران خان (اور ان کے ساتھی) قومی اسمبلی سے استعفے دیدیں تو وزیراعظم نوازشریف قبل از وقت انتخابات کرا دیں گے۔ انہوں نے یہ بات پہلے بھی کہی تھی اور اب پھر دہرائی ہے کہ عمران خان یہ آپشن استعمال نہیں کریں گے۔ استعفوں کا آپشن عمران خان 2014ء کے ”تاریخی دھرنے” میں استعمال کرچکے ہیں، یہ دھرنا اپنی طوالت کے حساب سے تاریخی تھا لیکن اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ استعفے تو اس وقت تحریک انصاف کے تقریباً تمام ارکان کی جانب سے جمع کرا دیئے گئے تھے لیکن کئی ارکان نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی اور اسمبلی میں جاکر استعفے واپس لے لئے اور بعد کے اجلاسوں میں بھی بدستور شرکت کرتے رہے۔
استعفوں کی منظوری کیلئے سپیکر نے یہ شرط رکھی تھی کہ تمام ارکان فرداً فرداً ان کے پاس آئیں اور استعفے کی تصدیق کریں کہ واقعی انہوں نے دیئے ہیں اور برضا و رغبت دیئے ہیں کسی دباؤ کے تحت نہیں دیئے لیکن کوئی مرد میدان ایسا نہ نکلا جو سپیکر کے پاس جاکر کہتا کہ اس نے استعفیٰ دیا ہے (یا نہیں دیا) اور یوں اس پر سپیکر اپنا فیصلہ صادر کردیتے۔ صرف ایک ”باغی” کو یہ شرف حاصل ہوا کہ وہ کنٹینر سے اترا، اسمبلی کے اجلاس میں آیا، وہاں جاکر ایک دھواں دھار تقریر کی اور آخر میں ببانگ دہل استعفے کا اعلان کرکے اسمبلی کو خیرباد کہہ دیا، ان کی نشست خالی ہوگئی، مخدوم جاوید ہاشمی نے اس پر دوبارہ الیکشن لڑا مگر جیت نہ سکے۔ تحریک انصاف کے باقی جن ارکان نے استعفے دیئے تھے ان میں سے ایک دوسرے رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی بھی ایوان میں آئے، پارلیمنٹ کی اہمیت بیان کی، اس کی عظمت کے سامنے سر جھکایا، لیکن استعفے کا اعلان کئے بغیر ساتھیوں کے ہمراہ ایوان سے چلے گئے۔
یہ وہ ایام تھے جب اسمبلی کے ایوان کے باہر کنٹینر پر ارکان پارلیمنٹ کے خلاف تقریریں ہوتی تھیں اور کہا جاتا تھا کہ یہ سپیکر کون ہیں جو ہمارے استعفے منظور نہیں کرتے، ہم مستعفی ہوچکے۔ اب کبھی اس ایوان میں چوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے، لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ استعفے منظور نہیں ہوئے اور تحریک انصاف کے تمام وہ ارکان جو مستعفی ہوچکے تھے، واپس آگئے اور اس سارے عرصے کی تنخواہیں بھی وصول کیں اور اب اس ایوان میں آتے ہیں، اس لئے جاوید ہاشمی جب یہ کہتے ہیں کہ عمران خان مستعفی نہیں ہوں گے تو ان کے سامنے پرانے استعفوں کا یہ پس منظر ہوتا ہے۔
Khawaja Asif
وزیر دفاع خواجہ آصف نے تحریک انصاف کے ارکان کی آمد پر ”کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے” جیسے الفاظ استعمال کئے تھے جس پر ہمارے بعض دوست ناراض بھی ہوئے تاہم استعفوں کی منظوری پر اصرار انہوں نے اب کبھی نہیں کیا، اس لئے کیا اب اس بات کا امکان ہے کہ وہ استعفیٰ دیں گے، اس معاملے میں ہم جاوید ہاشمی کی رائے کے ساتھ ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی کا یہ خیال تو درست ہے کہ اگر تحریک انصاف کے ارکان نے استعفے دے دیئے تو نوازشریف قبل از وقت الیکشن کرانے کا سوچ سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کے ارکان دوسری مرتبہ استعفوں کا رسک لینے کیلئے تیار ہوں گے؟ ان سے پہلے جو غلطی سرزد ہوگئی تھی اس کا ازالہ تو انہوں نے ایوان میں واپس آکر کردیا، اب اگر دوبارہ استعفے دے دیئے اور وہ منظور بھی تصور کرلئے گئے تو استعفے دینے والوں کو اس سے کیا حاصل ہوگا؟۔
یہ امکان تو موجود ہے کہ حکومت ان نشستوں پر ضمنی انتخاب کروا دے لیکن فرض کرلیتے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات کا اعلان کردیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں امکان یہ ہے کہ بہت سے مستعفی ارکان کو تو تحریک انصاف ٹکٹ ہی نہیں دے گی خاص طور پر ان لوگوں کو جو پچھلی دفعہ مستعفی ہونے کے بعد اسمبلی میں جانا شروع ہوگئے تھے۔ وزیراعظم کو یہ اختیار تو ہر وقت حاصل ہوتا ہے کہ وہ صدر کو اسمبلی توڑنے کی سفارش کرکے نئے انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں لیکن ابھی ایسے حالات بالکل نہیں ہیں کہ وہ نئے انتخابات کی ضرورت محسوس کریں۔
اول تو وہ یہ چاہیں گے کہ اپنی مدت پوری کریں اور وقت مقررہ پر انتخابات کرائیں قبل از وقت انتخابات کی جانب وہ اس وقت جائیں گے جب انہیں کامیابی کا سو فیصد یقین ہوگا۔ اگر ایسا نہیں تو سیاسی ایڈونچر کرنے کی انہیں کوئی ضرورت نہیں۔ ایک اور منظر یہ بنتا ہے کہ اگر قبل از وقت انتخابات ہو جائیں تو کیا اپوزیشن جماعتیں اس کیلئے تیار ہیں اور حالات ان کیلئے سازگار ہیں؟ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دونوں کی ایک ایک صوبے میں حکومت ہے۔ اول الذکر تو صوبے میں دوبارہ جیتنے کی امید رکھ سکتی ہے لیکن موخرالذکر کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس لئے کہ اس صوبے میں جو جماعت بھی حکمران رہی ہے وہ دوسری مرتبہ کبھی جیت کر نہیں آئی۔
Pakistan Election
اگرچہ پاکستان میں قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہوتے ہیں لیکن مستقبل میں ایسا وقت آسکتا ہے جب کوئی ایک صوبہ یا ایک سے زیادہ صوبے قبل از وقت انتخابات کرانے کا آپشن استعمال کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے بعض ارکان نے وزیراعلیٰ کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ اگر وزیراعلیٰ دباؤ میں ہونے کی وجہ سے اسمبلی توڑنے کی سفارش گورنر کو کردیتے ہیں تو وہ اسمبلی توڑنے پر مجبور ہوں گے اور اگر نہیں توڑیں گے تو مقررہ آئینی مدت کے بعد اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں قبل از وقت صوبائی انتخابات کرانے کے سوا کیا چارہ کار رہ جائے گا؟۔
اگرچہ پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے اکٹھے ہی ہوئے لیکن آئندہ کسی وقت یہ نیا منظر بھی تو ابھر سکتا ہے، اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ آئندہ کسی وقت صوبوں کے الیکشن قبل از وقت نہیں ہوں گے۔ آزاد کشمیر کے حالیہ الیکشن میں پاکستان کی دونوں بڑی جماعتیں (پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف) ہار گئی ہیں۔
اگرچہ دونوں نے کامیابی کے بڑے بڑے دعوے کئے تھے اس لئے اب فوری طور پر وہ بھی کسی نئے انتخاب کا خطرہ مول نہیں لیں گی البتہ جو ضمنی انتخابات الیکشن کمیشن نامکمل ہونے کی وجہ سے رکے ہوئے تھے ان کا اعلان ہوچکا ہے۔ ان میں جماعتوں کی کارکردگی سامنے آ جائے گی۔ انہیں اس جانب توجہ دینی چاہئے۔