”وقت ” پلٹ کر نہیں آتا!

Sad Man

Sad Man

تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی
3جی اور 4جی کا زمانہ ہے، اس برق رفتار زمانہ میں ہر آدمی ہمہ وقت اس قدر مشغول و منہمک ہے کہ خدا کی پناہ!جب دیکھئے ہر بندۂ خدا کی زبان سے ایک یہی بات نکلتی ہے ” میں بہت مصروف ہوں یعنی (Busy)ہوں”۔ انسان کو اطمینان و سکون بھی میسر نہیں۔ چَین سے بیٹھ کر ایک وقت کی روٹی بھی نہیں کھا پاتاہے۔دوستوں سے ملاقات ہوتی ہے، تو بس صرف سلام دعاکی حد تک، صحیح ڈھنگ سے تو ملاقات بھی نہیں ہوتی۔ اور پھر اپنی مصروفیات بتا کر جلد رخصت ہونے کی سعی کرتا ہے۔قلبی طمانیت حاصل کرنے کے لئے نماز پڑھنے تو ضرور جاتا ہے لیکن اس میں بھی جلدی رہتی ہے۔ نماز پوری ہونے میں بمشکل دس منٹ لگتے ہیں مگر وہاں بھی جلد بازی میں آٹھ منٹ ہی لگاتا ہے۔ ادھر سلام پھیرا اور دعا و اذکار سے غافل ہوکر، آگے پیچھے مسبوقین کا خیال کیئے بغیر حواس باختہ ہوکر مسجد سے نکل بھاگتا ہے گویا فکرِ دنیا نے اسے آسیب زدہ کر دیا ہو۔

مصروف زمانہ میں کہیں کسی کو دکان کی فکر ہے تو کہیں کسی کو مکان کی۔ روڈ پر چلتے ہوئے ٹریفک سگنل کے پچاس سیکنڈ کی ریڈ لائٹ کا وقفہ بھی برداشت نہیں۔ جلد بازی میں ٹریفک اصولوں کا کوئی خیال نہیںکرتا، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جتنی جلد بازی سے کام لیا جاتا ہے اتنا ہی خطرناک انجام سامنے آتا ہے لیکن حقیقت اس کے عکس ہے، نہ دن گھٹتا ہے اور نہ ہی وقت جلد بھاگتا ہے اگر ایسا محسوس ہوتا ہے تو اس کی اصل وجہ صرف یہ ہے کہ ہم وقت کی صحیح ڈھنگ سے استعمال نہیں کر پاتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر ہمیں کسی جگہ انٹرویو کے لئے جانا ہو، تو دس بجے شروع ہونے والے انٹرویو یا امتحان میں شرکت کے لئے ایک گھنٹہ پہلے تیاری نہ کرکے آخری آدھا گھنٹہ باقی رہ جانے پر دوڑنے لگیں گے تو لا محالہ راستہ چلتے چلتے جلد بازی میں کہیں کسی سے ٹکرائیں گے یا پھر ایڈمت کارڈ ہی بھول کر چلے جائیں گے۔وقت کی پابندی انسان کو آسمان کی بلندی تک پہنچاتی ہے جبکہ اس کی ناقدری تباہ کر دیتی ہے۔ وقت برباد کرنے والے خود بے وقعت اور بے اثر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ہمارے اسلاف نے جس طرح وقت کی قدر کی ہیں اگر آج ہم اس کا عشرِ عشیر کا بھی لحاظ کر لیں تو وقت کے تئیں ہرگز افسوس نہیں ہوگا۔

Time

Time

کہا جاتا ہے کہ وقت پر کار بند حضرات کو دیکھ کر لوگ اپنی اپنی گھڑی کے اوقات درست کرتے تھے۔ ٹیلی ویژن، انٹر نیٹ کے سامنے گھنٹوں بیٹھ کر خرافات سے دل بہلا تو لیتے ہیں مگر ان لمحات کے پسِ پردہ وقت کا خاموش سمندر بیش قیمت صدف ہمارے سامنے سے لے کر گذر جاتا ہے مگر ہمیں اس کا ذرہ برابر شعور نہیں ہوتا۔ پہلے ہم ٹیلی ویژن، انٹر نیٹ ، فلم، حد سے زیادہ کھیل، پتنگ بازی، کبوتر بازی وغیرہ میں اوقات کو ضائع کرتے ہی تھے اب تو فیس بک اور واٹس اَپ کی ایجاد اور اس کے بیجا استعمال نے تو ہماری رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ اپنے اوقات کے تئیں سنجیدہ ہوکر ان کا صحیح استعمال کریں تاکہ وقت کی ناقدری کے نتیجہ میں آنے والی تباہی سے بچ سکیں۔

جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے وہ در حقیقت ایک قیمتی خزانہ ضائع کر دیتے ہیں۔ گزرا ہوا واقت کبھی کسی قیمت پر واپس نہیں آتا۔ پابندیٔ وقت کے ساتھ اگر ہم محنت کریں تو ہم اپنی اقتصادی حالات کو بھی درست کر سکتے ہیں۔ عزت کی زندگی بسر کر سکتے ہیں یوں ہم کسی کے محتاج نہیں ہونگے۔نظامِ کائنات بھی ہمیں وقت کی پابندی کا درس دیتا ہے۔ ہر موسم اپنے وقت پر بدلتا ہے، دن رات بھی وقت کے پابند ہیں، انسان پھر بھی اگر اپنے آپ کو پابندیٔ وقت کا عادی نہیں بناتا تو یہ اُس کی ناسمجھی یا نا اہلی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

پابندیٔ وقت سے مراد ہر کام اُس کے مقررہ وقت پر کرنا اور باقاعدگی سے کرنا ہے۔ وقت کی پابندی انسان کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ آج وہی قومیں ترقی کی انتہا پر ہیں جنہوں نے وقت کی قدر کی، وقت کی قدر نا کرنے والی قومیں ناکام اور نامراد رہتی ہیں۔ جہ لوگ وقت کی اہمیت سے واقف ہیں وہ اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دیتے اور آج کا کام کل پر نہیں چھوڑتے۔اگر ہم اپنے اِرد گِرد صرفِ نظر کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ ساری کی ساری کائنات پابندیٔ وقت کی زنجیر میں جکری ہوئی ہے، دن اور رات کا اپنے وقت پر نمودار ہونا،

Sun Rises

Sun Rises

چاند اور سورج کا اپنے وقت پر طلوع اور غروب ہونا مقرر ہے۔موسموں کا تسلسل اور اسی طرح کھیتوں میں فصل کا پکنا ، سب کے مقررہ اوقات کار ہیں۔ فطرت کے ان تمام عناصر میں کبھی کوئی بے قاعدگی نہیں ہوتی۔ یہ سارا نظامِ کائنات ہمیں وقت کی پابندی کا ہی درس دیتا ہے۔بچہ اگر وقت پر اسکول نہ جائے تو تعلیم حاصل نہیں کر سکتا، کسان اگر وقت پر بیج نہ بوئے ، پانی نا دے اور وقت پر فصل نہ کاٹے تو کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اسی طرح کارخانہ دار کام نا کروائے اور مزدور کام نہ کرے تو اُسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے لئے نہایت ضروری ہے کہ ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا جائے۔ کہتے ہیں کے ایک منٹ کا بھولا ہوا لاکھوں کوس دور رہ جاتا ہے۔

یہ سہی ہے کہ جو لوگ اس بات کی قدر نہیں کرتے دولت اُن سے روٹھ جاتی ہے۔ عزت اُن سے منہ موڑ لیتی ہے اور وہ ساری زندگی ناکام گزارتے ہیں۔ ”وقت ”دراصل ترقی کا زینہ اور کامیابی کا راز ہے۔ یہ ایک انمول خزانہ ہے، کھوئی ہوئی دولت کا حصول تو ممکن ہے مگر وقت ایک ایسی دولت ہے جو گذر جائے تو کسی بھی قیمت پر واپس نہیں آسکتا۔ مغربی عوام آج زندگی کے ہر میدان میں آگے ہیں کیونکہ ہر فرد وقت کا پابند ہے۔

وہ اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی فضول ضائع نہیں کرتے۔ وقت کی قدر و قیمت جان کر اس مقام پر پہنچے ہیں لیکن جن قوموں نے وقت کی قدر نہیں کی وہ زوال کا شکار ہو گئیں۔ مشہور فاتح نپولین میدانِ جنگ میں صرف چند منٹ کی تاخیر سے پہنچا جس کا نتیجہ اُس کو شکست کی صورت میں حاصل ہوا اور اسی چند منٹ کی تاخیر کی سزا تمام عمر بھگتنا پڑی۔ اگر ہمیں کامیابی حاصل کرنی ہے تو ہم سب کو وقت کی پابندی کو اپنا اصول بنانا ہوگا۔تبھی جاکر ہم اپنی اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ سکتے ہیں اور کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

Jawed Siddiqi

Jawed Siddiqi

تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی