وہ وقت مجھے یاد آتا ہے جب ننھی منی گڑیا تھی بابا کی آنکھ کا تارا تھی، ماں کی راج دلاری تھی بابا کہتے تھے شہزادی ،ماں کہتی تھی جاں واری پھر ایسا موسم آیا اک بابل کی بانہیں چھوڑ چلی انجانے رشتوں سے بندھ کے سچے رشتے توڑ چلی ڈانٹ ،ڈپٹ، طعنے ،تشنے سب کچھ سہتی رہتی تھی ماں کی جان ، بابا کی لاڈو،منھ سے کچھ نہ کہتی تھی پھر اک دن ایسا بھی آیا قدموں تلے جنت آئی اس کے چہرے کی زردی میں خوشی کی لہر چھائی خوش تھی وہ ،تنہائی میں کچھ تو رنگ بھریں گے اب دل کی باتیں کہہ لوں جی کے سنگ رہیں گے اب وقت بہت ظالم تھا ، اس کی خوشی سے جلتا تھا جس کی آس پہ خوش تھی وہ ،جب وہ آئی تو روٹھ گئی جیون سے ناتا چھوٹ گیا اور سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی