وقت اور دولت 2 ایسی چیزیں ہیں جو انسان کے اختیا ر میں نہیں ، کیونکہ وقت انسان کو مجبور اور دولت انسان کو مغرور بنا دیتی ہے۔آخر وقت ہے کیا ؟ عام طور پر لوگ سب سے پہلے گھڑی والی وقت کی طرف دھیان لے جاتے ہیں کہ دن یا رات کا 3,2,1 بجے وغیرہ وغیرہ ۔ وقت سے مراد موجودہ حالت کہہ سکتے ہیں جس وقت جس حال میں ہے ، وہ اُس کا وقت کہلاتا ہے۔ اگر خوش ہے تو خوشی کا وقت ہے ، اگر مایوس و پریشان ہے ، تو ہم پریشانی و مایوسی کا وقت کہتے ہیں۔ پاکستان کے دو بنیادی طبقے ہیں جن میں ایک عوام اور دو سرا حکمران ہے۔ اِس وقت عوام کا وقت چل رہا ہے کیونکہ کچھ حکمران تو نگران ہیں مطلب ان کا وقت جلدی جانے والا ہے جو آنے والے حکمران ہونگے وہ تقریباََ پانچ سال کی مدت کے ساتھ بر سر اقتدار آنا چاہتے ہیں۔
تو ان کو اقتدار عوام کی ووٹ سے مل سکتا ہے ۔ اب حکمرانی کی خواہشات میں تقریباََ تیس ہزار سے زائد لوگ تمناء رکھتے ہیں جن میں کم و بیش ایک ہزار کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ اِ ن تمام حضرات کی عوام کے پاس لائن لگ چکی ہیں یک بعد دیگر کا سلسلہ شروع ہے ۔ یہ وقت دونوں طبقوں کا ہے دونوں مجبور بھی ہیں ۔ کیونکہ عوام نے کسی نا کسی کو ووٹ دینا ہے جو اس کی مجبوری ہے اور حکمرانی کی تمنا ء رکھنے والے بھی مجبور ہیں اِ ن کو ہر صورت میں زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے ہیں۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں یہ موجودہ وقت عوام کے لئے خوشی کا وقت ہے کہ بڑے بڑے سیاستدان و بڑے بڑے قد آور شخصیات اِ ن کے دروازے پر بھکاری بنے پھر رہے ہیں۔
ووٹ حاصل کرنے کے لئے جھولی پھیلائے ہو ئے نظریں جھکائے ہوئے فقیر بنے کھڑے ہیں۔ اور حکمرانوں کے لئے پریشانی کا وقت ہے کہ ماضی کے حکمران جو نظریں آسمان پر رکھنے والے آج ایک غریب کے دروازے پر پریشان کھڑے اپنے ہی نظروں میں شرمندہ مایوس کھڑے ہیں۔ دونوں کا وقت ہے دونوں مجبور ہیں دونوں طبقوں سے غلط فیصلہ کے زیادہ امکانات ہیں ۔وقت انسان اس قدر مجبور کر دیتا ہے کہ فیصلہ کرنا انسان کے لئے بہت مشکل ہو جاتا ہے اور جب کوئی جلد بازی میں فیصلہ کرتا ہے تو فیصلہ درست نہیں ہوتا نہ ہی اس کے حق میں ہوتا ہے ۔غریب اور امیر دونوں وقت کے شکنجے میں پھسے ہوئے نظر آ رہے ہیں ، غریب اور ا میر وہ طبقہ ہیں جو اس وقت پاکستان میں بے شمار مسائل کی دلدل میں لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
Politicians Pakistan
بحرحال اب عوام کا وقت ہے کہ سیاست دانوں کے ساتھ کس طرح سلوک کرتے ہیں ۔ دولت : دولت انسان کو مغرور بنا دیتی ہے ۔ دولت میں ایک ایسا نشہ ہے جس کی غمار تا موت جان نہیں چھوڑتی اور نہ ہی سکون سے رہنے دیتا ہے دولت ملتے ہیں انسان کے دل میں لالچ جنم لیتی ہے کو ایک ناپاک مرض ہے ۔ ایک آدمی تھا غریبی کا شکار ایک بادشاہ کے پاس گیا اور روتے ہوئے درخواست کی مجھے کچھ اشرفیاں عنایت فرمائیں تو بادشاہ نے پوچھا تمھاری ضرورت کتنی ہے تو آدمی نے کہا کہ 10 اشرفیاں ! بادشاہ مسکراتے ہوئے دے دیئے۔ تو آدمی شکریہ ادا کر کے واپس جا رہا تھا کہ بادشاہ نے دوبارہ پوچھا اگر اور بھی ضرورت ہیں تو میں تمہیں دینے کے لئے تیار ہوں تو آدمی کے دل میں فوراََ لالچ پیدا ہو گیا تو کہا جی ہاں بادشاہ سلامت مجھے 100 اشرفیاں ضرورت ہیں تو بادشاہ نے 110 اشرفیاں دے دیئے۔
لیکن لالچ نے جنم لی تھی تو آدمی رونے لگا کہ بادشاہ سلامت مجھے کچھ زیادہ ضرورت ہیں عنایت فرمائیں تو بادشاہ نے 500 اشرفیاں عنایت فرمائی اور پوچھا کہ تم کیا کروگے تو کہنے لگا کہ میں گھر میں محفوظ رکھوں اور اپنی بچوں کو سکون کے ساتھ کھلاؤں گا تاکہ وہ پریشانی سے ہمیشہ کے لئے بچ سکیں ۔ تو اچانک ایک دوسرا آدمی دربار میں پیش ہوا اُ س نے ایک اشرفی کی درخواست کی تو بادشاہ نے انصاف کو قائم رکھتے ہوئے 620 اشرفیاں دے دیا مگر اِس آدمی نے صرف ایک کے لئے ضد کرتے ہوئے کہا باقی کسی اور غریب ضرورت مند کو عنایت فرمائیں اگر مجھے دوبارہ ضرورت ہوا تو ایک اشرفی لینے ضرور دربار میں پیش ہونگا۔ یہ عالم دیکھ پہلا لالچی آدمی کا سر شرم سے جُھک گیا اور بادشاہ کو بھی لالچ کا اندازہ ہوا اور پہلے آدمی سے اشرفیاں واپس لے کر جیل میں قید کرنے کا حکم دے دیا اور کہنے لگا کہ کسی اور کی حق پر نظریں جمانا بھی جرم ہے ۔اِ س جرم کی اسے 620 ایام قید کی سزا ہے۔
دولت انسا ن کا سب سے زیادہ ہمدرد بھی اور سب سے زیادہ دشمن بھی ہے ۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے بھائی بھائی کا ،باپ بیٹے کا، دوست دوست کا ،جانی و مالی دشمن بن جاتا ہے جس سے ان کی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہے ۔ دولت تمام جراہم کی جڑ ہے ۔ بے ایمانی ، چوری ،ڈکیتی ، لوٹ مار، قتل و غارت تمام جرائم کرنے پر مجبور کرتا ہے کیونکہ ایسے دولت کی ضرورت پورا ہو جاتا ہے۔ایک عام آدمی دولت کے پیچھے نکلتا ہے تو اِ س کی حالت آدم غور سے بھی زیادہ خطر ناک ہو جاتا ہے کیونکہ آدم خور اپنی نسل پر رحم بھی کرتاہے اور اپنی جسم کو کھانے کے بجائے بھوک تسلیم بھی کرتا ہے مگر دولت کے پیچھے جانے والا انسان اپنی ماں، باپ، بہن، بھائی ، بیٹے ، دوست کو بھی وقت آنے پر بے رحمی سے ہضم کرنے میں زرا دیر بھی نہیں کر تا ہے، تمام اخلاقی حدود پار کرتے ہوئے انسانیت کی لکیر سے نیچے چلا جاتا ہے۔
دولت حاصل کرنے کے بعد اکثر لوگ اپنی اوقت بھول جاتے ہیں کہ کسی دن اِس دولت کے لئے فقیر بنا تھا مگر غرور و تکبر پیدا ہونے کی وجہ سے انسان مغرور ہو جاتا ہے جس سے انسان کی پہچان ختم ہو جاتی ہے ۔ لوگ بظاہر عزت کرتے ہیں جس کو کچھ مفادات نظر آتے ہونگے و دیگر مغرور آدمی سے دور بھاگتے ہیں۔ دولت کی نشہ دنیا کی سب بد ترین نشہ ہے جس کی وجہ سے انسان آدم خور ، مغرور بن جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ ایک غریب و مفلس زمیں پر بیٹھ کر جب کسی امیر کی طرف دیکھتا ہے تو سر بلند کرنا پڑتا ہے لیکن امیر اپنی محل اور اُونچائی سے جب غریب کی طرف دیکھتا ہے تو اسے کم بخت کو اپنی نظرین جھُکانا پڑتے ہیں تو سے ثابت ہوتا ہے کہ غریب ہی امیر سے بہتر ہے جس کم از کم نظرین تو نہیں جُھکاتا ہے۔
بحرحال : حضرت علی نے درست ہی فرمایا ہے کہ”وقت اور دولت 2 ایسی چیزیں ہیں جو انسان کے اختیا ر میں نہیں ، کیونکہ وقت انسان کو مجبور اور دولت انسان کو مغرور بنا دیتی ہے۔