تحریر : طارق حسین بٹ شان پاکستان ایک ایسی اندھیر نگری ہے جس میں ہر سودہائی مچی ہو ئی ہے اوریوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان لوٹ مار کرنے والوں کی ایسی جنت ہے جہاںباز پرس کا کوئی امکان نہیں۔کیا آپ کے علم میں کوئی ایسا سیاستدان ہے جسے پاکستان میں کرپشن کی وجہ سے سزا ہوئی ہو؟کوئی تو ایسا نام ہو گا جسے مثا ل بنا کر پیش کیا جاسکے؟کرپشن کے خلاف زور دار نعرے ضرور لگیں گے۔
مخالفین کو ملعون بھی کیا جائے گا ، الزامات کی بارش بھی ہو گی، ٹانگیں بھی کھینچی جائیں گی، بھڑکیں بھی ماری جائیں گی ،تضحیک بھی کی جائیگی،مخالفین کونیچا بھی دکھایا جائے گا اور بلند و بانگ دعوے بھی کئے جائیں گے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔کوئی نشانِ عبت نہیں بنے گا۔سالہا سال جس کرپشن سکینڈل کا چرچا ہوتا ہے اور میڈیا جس پر بے شمار پروگرام کرتا ہے وہی سکینڈل آخرِ کار ٹھس ہو جاتا ہے کیونکہ سکینڈل بنانے والے منافق ہوتے ہیں ۔اگر ٹھس ہی کرنا ہو تا ہے تو پھر اسے اتنا اچھالا کیوں جاتا ہے ؟بہترہوتا کہ پہلے ہی ہاتھ ہولا رکھ لیاجاتا تا کہ بعد میں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔سابق وزیرِ مذہبی امور حامد کاظمی کے ساتھ کیا ہوا ؟مشہورو معروف ماڈل ایان علی کے ساتھ کیا ہوا؟شرجیل میمن کے ساتھ کیا ہوا؟ڈاکٹر عاصم کے ساتھ کیا ہوا؟کیا ہمیں کوئی دستا ویزی فلم دکھائی جا رہی ہے یا ہمارا واسطہ واقعی معاشرے کے حقیقی کرداروں سے ہے۔؟ہر چیز کی حد ہو تی ہے اور میاں محمد نواز شریف کی حکومت ہر حد عبور کر گئی ہے۔
الزامات لگانے میں حکومت کوئی شر مندگی محسوس نہیں کرتی لیکن جب الزامات کو سچ ثابت کرنے کا وقت آتا ہے تو حکومت دبک کے بیٹھ جاتی ہے ۔ سیاسی جماعتیں جس طرح کرپشن کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ایک جماعت آتی ہے لوٹ مار کرتی ہے ،پھر دوسری جماعت آدھمکتی ہے اور لوٹ مار کے ردھم کو پہلی جماعت سے بھی زیادہ تیز کر دیتی ہے۔اب چونکہ دونوں بڑی جماعتوں کا اہلِ اقتدار طبقہ کرپشن میں لتھڑا ہوا ہے لہذا ایک دوسرے کے خلاف ثبوت نہیں دئے جاتے۔ انیس ماہ تک شور مچایا جاتا رہا کہ ڈاکٹر عاصم ٤٧٩ ارب کی کرپشن میں ملوث ہیں اور انھیں نشانِ عبرت بنا یا جائیگا لیکن نتیجہ کیا نکلا ڈاکٹر عاصم کی ضمانت ہو گئی اور کل کا لٹیرا ایک ہیرو کے روپ میں باہر لایا گیا۔اس کا استقبال گلاب کی سرخ رنگ پتیوں سے کیا گیا۔شرجیل میمن کے گھر سے اربوں روپے ملے اور دو سال کے بعد جب انھوں نے پاک سر زمین پر قدم رکھا تو ان کی ضمانت بھی منظور ہو گئی۔قصور عدالتوں کا نہیں ہے بلکہ اس سیاسی ٹولے کا ہے جس نے مفاہمت کے نام پر لوٹ مار کا لائسنس لے رکھا ہے۔دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں کر پشن کا دور دورہ ہے اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ججز،جرنیل ،بیوو کریسی اور سرکاری ملازمین دونوں ہاتھوں سے ملکی دولت لوٹ رہے ہیں لیکن کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں ہے۔جسے دیکھو دولت کا بندہ ہے ۔اس ملک میں کڑے احتساب کا کوئی رواج نہیں ہے لہذا کوئی کرپشن سے کیوں ہاتھ روکے گا؟جب سزا نہیں ہونی تو پھر خواجہ سرا بھی شیر دل ٹھہریں گے لیکن اگر سزا کا عمل شروع ہو جائے تو بڑے بڑے سورموں کا بھی دل بیٹھ جائے گا کیونکہ جیل کی سلاخیں ان کا انتظار کر رہی ہوں گی اور ایسے حالات میں کوئی جیل جانا پسند نہیں کریگا۔،۔
ہمارے ہاں ایک اور بڑی قبیح روائت ہے کہ جب بھی کوئی با اثر سیاستدان اپنی کرتوتوںکی وجہ سے جیل بھیج دیا جاتا ہے تو اسے تمام سہولیات بہم پہنچائی جاتی ہیں۔اس کیلئے جیل کوگھر کی طرح سجا دیا جاتا ہے اور پھر جیل میں جب وہ بیمار ہو جاتا ہے تو اس کیلئے میڈیکل بورڈ بٹھادیا جا تا ہے تا کہ اسے کسی نہ کسی بہانے سے ریلف دینے کیلئے کوئی راستہ نکل آئے ۔ویسے تو سیاستدا نوں کی بھڑکیں سننے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن جب ان پر مشکل وقت پڑتا ہے تو پھر ان کی ساری بسالتیں ہوا ہو جاتی ہے۔انھیں دن میں تارے نظر آتے ہیں اور وہ آزمائش کی ان گھڑیوں سے نکلنے کیلئے ہاتھ پائوں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ کاش ملکی دولت لوٹتے وقت بھی وہ اس اصول کو پیشِ نظر رکھتے کہ ان کی گندی حرکتوں کی وجہ سے انھیں سزابھی ہو سکتی ہے؟اس وقت تو ہوسِ دولت ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے اور وہ دولت کے سوا کچھ بھی دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔انھیں اخبارات ،میڈیا،اپوزیش جماعتوں اور سکہ بند صحافیوں کی جانب سے بار بار یاد دلا یا جاتا ہے کہ وہ جس راہ پر نکل کھڑے ہوئے ہیں اس کا نتیجہ ذلت و رسوا ئی ہے لہذا بہتر ہے وہ اس راہ سے پلٹ جائیں لیکن اس وقت وہ پندو نصاح کو اپوزیشن کا گٹھ جوڑ کہہ کر جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب اقتدار رخصت ہو جاتا ہے تو پھر حساب کا وقت آن پہنچتا ہے اور شرمندگی کے علاوہ کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا۔سوال یہ ہے کہ جس طرح با اثر افراد کیلئے میڈیکل بورڈ بٹھائے جاتے ہیں کیا اس طرح کی سہولیات عام شہریوں کو بھی میسر ہوتی ہیں ؟عام شہری کی جیل میں جو درگت بنائی جاتی ہے اور اسے جس طرح رسوا کیا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔چناں کیتھے گزاری اے رات والا چھتر انھیں ان کی اوقات دکھانے کیلئے کافی ہوتا ہے۔
انھیں جیل میں جس طرح اذیتیں دی جاتی ہیں وہ ایک علیحدہ کہانی ہے جبکہ مراعات یافتہ طبقہ کو خصوصی رعائتوں سے نوازا جاتا ہے۔ کیا پاکستان صرف مراعات یافتہ طبقے کے لئے ہے یا عام شہریوں کا بھی پاکستان پر کوئی حق ہے؟کیا آئینِ پاکستا ن میں درج ہے کہ جب کوئی با اثر فرد اپنے جرموں کی وجہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا جائے تو اسے ریاست کا داماد سمجھا جائے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر انھیں خصوصی مراعات کس کھاتے میں دی جاتی ہیں؟قانون کا اطلاق تگڑے اور کمزور پر یکساں ہو نا چائیے ۔یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کمزور تو نا کردہ گناہوں کی سزا بھگتا رہے لیکن تگڑا انسان اپنے صلی گناہوں کی سزا بھگتنے سے بھی بچ جائے اور باہر نکل کر ڈھینگیں بھی مارتا رہے۔یہی تھی وہ صورتِ حا ل جس کے پیش نظر رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا تھاکہ ( تم سے پہلی امتیں اسی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیا جاتا تھا جبکہ کمزور کو سزا کا سزاوار بنا دیا جاتا تھا۔مجھے قسم ہے اس خدا کی جس کی مٹھی میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنتِ محمدۖ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیتا ۔) قانون کی حکمرانی کا اس سے بڑا معیار تاریخِ انسانی میں مفقود نظر آتا ہے۔انسانی تاریخ تو بادشاہوں،سپہ سالاروں ، جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور سرداروں کو تحفظ دینے کے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن یہ تو اسلام تھا جس نے دنیا کو بتا یا کہ ا نصاف صرف کمزور کو سزا دینے کا نام نہیں بلکہ انصاف ملزم کو سزا دینے کا نام ہے اور اس میں چھوٹے بڑے،امیر غریب اور کمزورو مضبوط کا کوئی تصور نہیں ہے۔اسلام کی یہی عادلانہ روش تھی جس سے اس کے مخالفین بھی اس کی عظمت ے قائل ہو گئے۔
دنیا میں اسلام کی ترویج اور اس کا پھیلائو ان سنہری اصولوں کی مرہونِ منت ہے جن سے صرف اسلام کا دامن سجا ہوا ہے۔یورپی اقوام تو انصاف کے معنوں سے بھی نا بلد تھی لیکن اگر آج وہ انصاف کی روح کے ساتھ زندہ ہیں تویہ صرف اور صرف اسلامی تعلیمات کا کمال ہے۔لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ ہم بحثیتِ مسلمان نا انصافی اور جبرو استبداد کا علم اٹھائے پھر رہے ہیں لیکن شرمندگی ہے کہہمیں چھو کر نہیں گزرتی۔عوام دہائی دیتے رہ جاتے ہیں کہ ہمارے مجرموں کو قانون و انصاف کے مطابق سزا دو لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی کیونکہ مجرموں کی فہرست میں ان کے اپنے چہیتے اور لاڈلے ہو تے ہیں لہذا ایسے عناصر کو انھوں نے ہر قیمت پر بچانا ہوتا ہے کیونکہ ان کو بچانا خود کو بچانا ہوتا ہے۔یہ روش کب تک؟ ہم کب تک تماشہ بنے رہیں گے؟کیا ہمیں یونہی چلتے رہنا ہے؟ کیا ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہم نے عدل و انصاف کا خون کرنا ہے؟ کیا ہم مٹی کے مادھو بن کر اپنے سیاسی راہنمائوں کی ہاں میں ہاں ملاتے جائیں گئے؟یا کسی دن ان پر ان کے گھنائونے اقدامات پر حرفِ ملامت بھیجیں گے؟ وقت کا نقارہ عدل و انصاف کی منادی کر رہا ہے اور ہمیں اس منادی کا جواب دینا ہے۔کیا ہم اس منادی کو دل وجان سے قبول کرنے کیلئے تیار ہیں؟