چنگیزخان سے کسی نے سوال کیا کہ تم نے آدھی دنیا کوتاخت وتاراج کیا۔ تمہارے سپاہی جب کسی شہرپرحملہ کرتے توظلم وستم کی انتہا کردیتے’ جیتنے کی سرشاری میں بوڑھوں پرتشدد کرتے، بچوں کوذبح کرتے اور عورتوں سے زیادتی کے بعدگھروں سے تمام اشیاء لوٹ کرانہیں آگ لگادیتے۔ تم تواس قدرظالم تھے کہ ایک دفعہ کسی شہرمیں فتح کے بعد تمہیں علم ہوا کہ کچھ لوگوں نے اپنے آپ کولاشوں کے ڈھیر میں چھپاکر زندہ بچ جانے کی کوشش کی تھی توتم نے انہیں ڈھونڈنکالنے کاحکم دیا اور ان کے سرقلم کروادئیے لیکن اس کے بعد تمام منگولوں کویہ حکم دے دیا گیاکہ ہرمارے جانے والے کاسرقلم کردیاجائے۔
تاکہ زندہ اور مردہ کی شناخت ہوسکے۔خود تمہاراقول ہے کہ مجھے اپنے دشمنوں کو نیست ونابودکرنا،ان کواپنے قدموں میں گرتے دیکھنا،ان کے گھوڑے اورسازوسامان چھین لینااوران کی عورتوں کے نوحے اوربین سننا میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے لیکن سوال کرنے والے نے پوچھاکہ تمہاری زندگی میں کبھی کوئی ایساموقع بھی آیا کہ تمہیں کسی پر ترس آیاہو،تم نے رحم کھایاہو۔ چنگیزخان نے اثبات میں سرہلایااور کہاہاں ایک دفعہ ایک شہرکولوٹنے کے بعدجب میں وہاں سے نکل رہاتھا تومیرے خوف سے عورتیںاپنے بچوں کوگودمیں لئے بھاگ رہیں تھیں۔
اچانک ایک عورت کاشیرخواربچہ اس کے ہاتھوں سے دریامیں گرگیا اوراس نے دردمندانہ طریقے سے رونا پیٹنا شروع کیا کہ مجھے اس پر ترس آگیا۔ میں نے اس بچے کودریامیں سے اپنے نیزے پراچھالا،نیزہ اس کے جسم کے آرپارہوگیا اورپھرمیں نے اسے روتی ہوئی ماں کے حوالے کردیا۔ظالموں کاجذبۂ رحم ایک اورلمحے میں بھی ابھرکرسامنے آتاہے جب لاشوں کے انبارمیں انہیں اپنے سب سے پیارے شخص کی لاش نظر آجائے۔ تیمورجوشہروں کوفتح کرتاتواپنے ظلم کی نشانی کے طورپر مرنے والوں کی کھوپڑیوں کواکٹھاکرتا اوران کے مینار بنواتا،پھران پرانہی انسانوں کی چربی کالیپ کرواتااور رات کوان کھوپڑیوں کوآگ دکھاکر روشن کیاجاتا۔
دوردورتک لوگوں کوعلم ہوسکے کہ تیمورنے یہ شہر فتح کرلیا لیکن اس کی آپ بیتی پڑھی جائے توایک مقام ایساآتاہے جب وہ پھوٹ پھوٹ کررویا۔دیواروں سے سرٹکراتارہا، لاشوں کے انبارکودیکھ کربین کرتا رہا۔اس سے کچھ بن نہیں پارہاتھا۔بس سپاہیوں کواکٹھاکیااورکوچ کاحکم دے دیا۔یہ وہ لمحہ تھاجب دلی میں کشت وخون جاری تھا کہ اس کے سامنے اس کے چہیتے اورلاڈلے بیٹے کی لاش لائی گئی۔
ظالموں اوران کی فوج کے سپاہیوں کے دل پتھرکے نہیں ہوتے لیکن ان کے مفادات اورحکم نامے انہیں پتھرکا بنادیتے ہیں۔ان تک چونکہ کوئی تلوار،کوئی گولی،کوئی بم نہیں پہنچ رہا ہوتا اس لئے انہیں یقین سا ہونے لگتاہے کہ موت ان کے دروازے پردستک نہیں دے گی۔وہ اوران کے پیارے اسی طرح بربریت اورظلم کے مقابلے میں اٹھنے والی نفرت سے بچتے رہیں گے۔ لیکن پھربھی اگرچنگیزخان کے سپاہیوںسے لے کرآج تک کے میدان کارِزار کے کہنہ مشق انسانوں کودیکھیں توان کے اندر جیتا جاگتا انسان انہیں ظلم پرسرزنش ضرورکرتارہتاہے۔
انہیں چین کی نیند نہیں سونے دیتا۔ انہیں مدتوں ضمیر کی ملامت کاشکار ضرور کرتا ہے۔ میرے سامنے اس وقت موجودہ دور کے چنگیز،تیموراورہلاکو کی نعم البدل امریکی فوج کے ادارے پینٹاگون کی ایک رپورٹ ہے جس میں انہوں نے عراق اور افغانستان میں کام کرنے والے فوجیوں کے لئے کچھ سکون بخش ادویات لازم قرار دی ہیں۔ یہ ادویات مستقل طورپر ٢١فیصد فوجی استعمال کررہے ہیں جبکہ٧٨فیصد فوجی اپنی ذہنی بیماری اورنفسیاتی بے سکونی کے لئے ماہرین دماغی امراض سے علاج کروارہے ہیں۔
Pakistan Terrorist
ان سپاہیوں کی کہانیاں اورمرض کی وجوہات بہت ملتی جلتی ہیں۔مثلاً انہیں حکم ملاکہ فلاں گھرمیں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں انہوں نے بمباری کرکے گھرکونیست ونابود کردیا۔ اندر گھسے توچاروں جانب بچوں کے کھلونے گڑیاں گھرکاسازوسامان اور ننھے ننھے جسموں کے پرخچے ملے۔ ان میں کوئی توکئی راتوں تک سونہ سکا اورکسی کوفوری طورپرذہنی بریک ڈاؤن ہوگیا۔گزشتہ سال یعنی٢٠١٢ء میں ٣٥ سپاہیوں نے اس ذہنی کرب اورضمیر کی اذیت سے چھٹکاراپانے کے لئے خودکشی کی۔ ان میں سے آدھے ایسے تھے۔
جو اس ذہنی اذیت کے علاج کے لئے مستقل دوائیاں لے رہے تھے۔پروزیک (Prozac)اورزولوفٹ (ZOLOFT) یہ دوایسی مسکن دوائیاں ہیں جویہ سپاہی مستقل کھاتے ہیں لیکن پھربھی ان کی آنکھوں کے سامنے سے لٹے پٹے، اجڑے اورتباہ شدہ ملبوں میں معصوم بچوں اور عورتوں کی لاشیں نہیں بھول پاتیں۔یہ رپورٹ پڑھ رہاتھاتواس کے ساتھ ہی ایک اوردلچسپ خبربھی پڑھنے کو ملی جنرل پرویز مشرف کی صاحبزادی ڈاکٹر عائلہ رضا کی درخواست پرپاکستان کی سندھ ہائی کورٹ نے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کی تین مقدمات سابق وزیر اعظم اور بینظیر بھٹو کو مطلوبہ حفاظت فراہم نہ کرنے۔
بلوچستان کے قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل کی سازش کرنے اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت ساٹھ ججز کو حبس بیجا میں رکھنے کا الزام میں حفاظتی ضمانتیں منظور کرلی ہیں۔ مجھے یہ خبرپڑھنے کے بعدنجانے کیوںجولائی ٢٠٠٧ء کی وہ ظالم وسفاک صبح یادآگئی جب لال مسجد میں رات بھربم برسانے ،فاسفورس کی بوچھاڑ کرنے،گولیوں سے جسم چھلنی کرنے والے ان فاتح نوجوانوں کابہادری کا معرکہ یادآگیاکہ جب وہ اندرداخل ہوئے ہوں گے توہوسکتا ہے۔
انہیں کہیں ماں سے لپٹی ہوئی کسی معصوم بچی کی لاش ملی ہو،جامعہ حفصہ کے کسی کمرے میں خوف میں دبکی آپس میں چمٹی ہوئی ننھی ننھی بچیوں کی لاشوں کاڈھیر نظرآیاہو،کسی باورچی خانے میں اوندھے برتن اورٹوٹے گلاس ہوں،کسی کی ماں کا جلا ہوا خط ہو،کسی کی پھٹی ہوئی ڈائری ،کسی کااپنے ہاتھوں سے کروشئے کی کڑھائی والا حجاب یا چادرہو۔ وہ ان سب کوروندتے ہوئے کیسے گزرگئے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے انہیں اپنے گھروں میں ہنستی کھیلتی،مسکراتی،باپ کوفرمائشوں کے خط لکھتی بچیاں توضرور یاد آئی ہونگی لیکن انہیں ضبط کے اس عالم میں اس سارے ملبے کو صاف کرناپڑا۔
کوڑے کے ڈھیرکی طرح سب کچھ ایک جانب اکٹھا کرناپڑا،وہ سب ثبوت تلف کرنے پڑے لیکن اس سارے واقعے کاکوئی مقدمہ دائرنہیں ہواکہ آج اس کی بھی قبل ازگرفتاری کی ضمانت کی حاجت ہوتی لیکن یہ سب منظر ان کے ذہنوں پرتونقش ہوں گے۔ کاش کوئی جاکران سے پوچھے کہ کون کیسے جی رہاہے، کس سے علاج کروارہاہے، کونسی دوا استعمال کررہاہے لیکن اس سب سے دور قمقموں کی روشنی میں حکم دینے والا بھی جوآج بھی سمجھتا ہے کہ کوئی بندوق کی گولی یاکوئی بم اس تک نہیں پہنچ سکتابلکہ آج بھی بڑے تفاخرانہ اندازمیں ٹی وی پراس بہادری کااعتراف کررہاہے۔
Afghanistan Forces
مجھے ایک اور وقت بھی یادآرہاہے جب گیارہ ستمبر کے بعدپاکستان کے بہت سے نوجوان افغانستان میں امریکی فوجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے چل کھڑے ہوئے تھے۔ ان میں ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے ایک انتہائی اہم شخص کا بیٹا اورپنجاب کی ایک مقتدرشخصیت کا صاحبزادہ بھی شامل تھا۔پوری رات وزارت داخلہ کی ذمہ داری تھی کہ سرحدیں سیل کرکے انہیں واپس لایاجائے۔ صبح تک دونوں کواپنے گھروں میں واپس لوٹادیا گیا تھا۔اگرلال مسجد کی راہداریوں میں کسی ایسی ہی بڑی شخصیت کا صاحبزادہ یاصاحبزادی ہوتی تومیں دیکھتا کہ کیسے رحم، ترس اور انسانیت کوٹ کوٹ کربھرجاتی، کون تھاجوکہتاکہ جوہے۔
کرگزرو،بے شک میرابیٹاہی زدمیں کیوں نہ آجائے؟ مذاکرات ہوتے ،راتیں جاگی جاتیں، ایسے لمحے کسی شوکت عزیزکوبلیوایریا میں قلفی کھانے کی ہمت نہ ہوتی ۔ اگرتیمور کی زندگی میں ظلم کے انجام کی تصویر اپنے بیٹے کی موت کی صورت میں ظاہرہوسکتی ہے، امریکہ کی فوج کی ٧٨فیصد نفری عراق وافغانستان میں نفسیاتی علاج پر مجبور ہوسکتی ہے۔
تواس دھرتی اوراس ملک پرکسی اوررحمن ورحیم کی بادشاہی نہیں؟وہ توصرف مہلت دیتاہے اوراس مہلت کی مدت کے ختم ہونے کاانتظار کرتاہے۔ پھر نہ معافی کام آتی ہے، نہ رونا دھونا۔ بددعاؤں،آہوں،سسکیوں، چیخوں اورمظلوموں کی فریادوں کی قبولیت کاراج شروع ہو جاتا ہے ۔ بس اس وقت کا انتطار ہے اورلگتاہے کہ وہ وقت اب آن پہنچاہے۔ تحریر : سمیع اللہ ملک