تحریر : بائو اصغر علی وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اچھے وقت میں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے کیونکہ برا وقت آنے میں دیر نہیں لگتی جیسا کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پر آیا اور و ہ وزرات عظمیٰ کے بعد پارٹی صدارت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ،اور (ن) لیگ سینیٹ الیکشن سے بھی باہر ہو گئی۔ گزشتہ روز سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات 2017 کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزرات عظمیٰ کے بعد پارٹی صدارت سے بھی نااہل قرار دے دیا ہے ،چیف جسٹس نے نواز شریف کو پارٹی صدارت کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے فیصلہ دیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 پر نہ اترنے والا شخص پارٹی صدارت نہیں رکھ سکتا کیونکہ پارٹی صدارت کا براہ راست تعلق پارلیمنٹ سے ہے۔
عدالتی فیصلے میں نواز شریف کے بطور پارٹی صدر اٹھائے گئے اقدامات کو بھی کالعدم قرار دیا گیا ہے نوازشریف کے سینیٹ الیکشن کے لئے امیدواروں کو جاری کردہ پارٹی ٹکٹ بھی منسوخ دیے گئے ہیں،آرٹیکل 17 سیاسی جماعت بنانے کا حق دیتا ہے،جس میں تمام قانونی شرائط موجود ہیں۔، فیصلے میں کہا گیا ہے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63پر پورا اترنے والا ہی پارٹی صدر بن سکتا ہے،سپریم کورٹ نے نواز شریف کی مسلم لیگ(ن)کی صدارت ختم کردی، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پابندی کا اطلاق نواز شریف کی نااہلی کی مدت سے ہوگا،یاد رہے میاں نواز شریف نے عملی سیاست کا آغاز 1981ء میں کیا جب وہ پہلی مرتبہ پنجاب میں بنائی گئی صوبائی کونس کے ممبر بنے اور پھر 1985ء میں مارشل لاء کے خاتمے کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے اسی زمانے میں میاں نواز شریف نے شیر پنجاب کا خطاب حاصل کیا ،1988ء میں میاں نواز شریف وزارت اعظم کے عہدے پر فائز ہوے اس وقت مرکزی حکومت بے نظیر بھٹو نے سنبھالی،میاں نواز شریف کو پہلی مرتبہ یکم نومبر 1990ء کو وزیر اعظم بننے کا موقع ملا ،دوسری مرتبہ میاں نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے بعد 1997ء میں اقتدار سنبھالا جو اکتوبر 1999ء میں ایمر جنسی کے نفاذ کے ساتھ ہی ختم ہو گیا ،اس کے بعد 2013ء میں میاں نواز شریف نے میدان مار لیا اور ایک بار پھر وزیر اعظم کی شیر وانی پہن لی اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھ گئے۔
تقریباّ چار سال دو ماہ میاں نواز شریف نے حکومت سنبھالی ،پھر قسمت کی دیوی نے میاں نواز شریف کو خیر باد کہہ دیا اور 28جولائی 2017ء میاں نوازشریف ناہل قرار دے دیئے گئے اور میاں نوازشریف وزیراعظم سے سابق وزیر اعظم بن گئے ،اور پھرگزشتہ روزانتخابی اصلاحات 2017 کیس کا فیصلہ اکیس فروری کی شام چھ بجے کے قریب ہوا جس میںمیاں نوازشریف کو پارٹی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا گیا،مگر یہ حقیت ہے کہ (ن)لیگ پاکستان کی ایک بہت بڑی سیاسی جماعت ہے اور میاں نواز شریف اس جماعت کے رہنما ہیں اور رہیں گے پارٹی قیادت نہ ہونے کے باوجود بھی مسلم لیگ ن میں ان کا کردار ایک مسلمہ حقیقت ہے اور رہے گا ،اس میں کوئی شق نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت ”شریف برادران” ہی کے پاس رہے گی،پارٹی صدارت کا تاج کس کے سر سجے گا ن لیگ کے اگلے صدر کیلئے اہلیہ کلثوم نواز ،شہباز شریف اور مریم نوازکے نام زیر غور تھے۔
اس میں شہباز شریف کے چانس زیادہ تھے مریم نواز کو صدر بنانے پر پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کا خدیشہ تھا ،اور با لا آخرمسلم لیگ (ن) کے صدر کیلئے میاں محمد شہباز شریف کی نامزدگی کا فیصلہ کر لیا گیاہے ذرائع کے مطابق پارٹی صدر کے انتخاب کیلئے اجلاس سینیٹ الیکشن کے فوری بعد ہو گا، اور اب ، ، سیاسی صورت حال،،یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی پارٹی قیادت کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ ن سینیٹ الیکشن سے بھی باہر ہو گئی ہے البتہ ان کے نامزد امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیںمیڈیا رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے ن لیگ کی نئے امیدواروں کو سینیٹ ٹکٹس جاری کرنے سے متعلق درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ن لیگ کے امیدوار آزاد حیثیت میں سینیٹ الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں جبکہ امیدوار کامیابی کے بعد ن لیگ سے وابستگی اختیار نہیں کر سکتے۔
واضح رہے کہ سینیٹ کے انتخابات کیلئے مسلم لیگ ن نے اپنے امیدواروں کو ٹکٹس جاری کیے تھے سینیٹ امیدواروں کو نئے پارٹی ٹکٹس چیئرمین پارٹی راجہ ظفر الحق کی جانب سے جاری کئے گئے تھے اس سلسلے میں راجہ ظفرالحق کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوے کہنا تھا کہ بطور چیئرمین مسلم لیگ (ن)ان کے پاس پارٹی ٹکٹس جاری کرنے کا اختیار ہے ،مگر الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے شیڈول کے مطابق اب کسی سیاسی جماعت کی جانب سے نئے ٹکٹس جاری نہیں کیے جا سکتے ،تاہم اب ن لیگ کے ارکان آزاد حثیثت میں انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں ،اب یہ ضروری ہے کہ،، شریف برادران،، کوہر قدم پر احتیاد برتنی پڑے گی،اس لئے بزرگ کہتے ہیں کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی ہر وقت اللہ سے ڈرنا چاہیے برا وقت آجائے تو بڑوں بڑوں کو تخت شاہی سے اتار دیتا ہے۔