وقت ایک قیمتی سرمایہ ہے جس کی اہمیت کا اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو جانتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ نہیں چلتا بلکہ ہم اس کے ساتھ چلتے ہیں اور غلطی سے بھی ایک لمحے کو ضائع نہیں کرتے اسکی مثال عام طور پر مغربی ممالک کو مد نظر رکھ کر دی جاتی ہے کہ وہ لوگ وقت کے کتنے پابند ہوتے ہیں کیونکہ وقت گزرنے اور ہاتھ نہ آنے والی شے ہے۔ ہمارا دین اور ہماری پاک کتاب قرآن حکیم تمام دنیا کے لئے مشعل راہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ایک ذرے سے لیکر کائنات میں بکھری ہر چیز کے بارے میں صاف اور تفصیل سے بتا دیا ہے کہ میں نے انسانوں کے لئے یہ زمین بنائی اور اس پر ایسی نایاب اور انمول اشیاء پیدا کیں جو کائنات کے کسی دوسرے سیارے میں دستیاب نہیں ہیں اور یہ کہ انسان ان تمام اشیاء کو طریقے اور سلیقے سے خود بھی استعمال کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے بھی آسائشیں، سہولتیں اور آسانیاں چھوڑ جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے کہ ہر چیز کا حاصل کرنے یا کھونے کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ صبح سویرے اٹھو گے تو اس کے نتیجے میں تمھارے رزق و مال میں برکت ہو گی اور دیر سے اٹھنے والے پریشان اور رنجیدہ رہیں گے ،اس حدیث کو مفصل بیان کرنے میں کئی حوالے دینے ہونگے مختصر یہ کہ وقت کی پابندی لازمی قرا دی گئی ،فجر کی نماز کے بعد نہ سونے سے ہمیں دن میں کئی گھنٹے اضافی مل جاتے ہیں جنہیں ہم اپنے روزمرہ کے حالات اور واقعات کو سامنے رکھ کر اور وقت کا تعین کرنے کے بعد حل کرتے ہیںجو کہ ہمارے لئے مفید ہیں،ایک کہاوت ہے جو آدمی صبح جلدی اٹھتا ہے اسے دولت مند بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔آج وقت ایک اہم علمی، سائنسی اور تکنیکی موضوع بن چکا ہے اور اس پر تحقیق کرنے کے بعد بے شمار کتابیں لکھی جا رہی ہیں اور اسکی اہمیت سے تمام دنیا کو آگاہ کر دیا گیا ہے ، دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ بات اچھی طر ح ذہن نشیں کر لیجئے کہ جو زمانہ گزر رہا ہے یہ ہی وقت ہے اسے غنیمت جانو اور ہر لمحے کا فائدہ اٹھاؤ،کیونکہ کائنات میں ہر جان دار و بے جان مخلوق کا ایک وقت مقرر ہے ، ہر انسان کے نہ صرف جینے بلکہ مرنے کا بھی وقت مقرر ہے ،بلکہ اس کے ہر کام کا وقت مقرر ہے حتیٰ کہ سانسیں بھی مقرر ہیں،وقت کی مثال ایک برف کے گولے یا سل کے مانند ہے جو گھل کر ختم ہو جاتے ہیں ،وقت کا کوئی نعم البدل نہیں جو لمحہ گزر گیا وہ واپس نہیں آئے گا ،وقت کوئی روپیہ پیسہ ، مکان و جائداد نہیں کہ دوبارہ کمایا یا بنایا جا سکے۔
حدیث میں آتا ہے کہ ہمیں وقت کے ایک ایک لمحے کا حساب اللہ تعالیٰ کو دینا ہو گا ،حشر کے میدان میں انسان آگے نہ بڑھ پائے گا جب تک کہ پوری زندگی کا حساب نہ دے لے،کہ عمر کہاں گزاری،مال و زر کیسے کمایا، کہاں خرچ کیا ،علم حاصل کیا تو اسے کس طرح استعمال کیا ،کیا تمھارا علم میرے کسی بندے کے کام آیا وغیرہ وغیرہ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ تباہ ہو گیا وہ شخص جس کا آج اس کے گزرے کل سے بہتر نہ ہو، لہذٰا انسان پر لازم ہے کہ اپنی طاقت سے اپنے نفس کے لئے، دنیا سے آخرت کیلئے، جوانی سے بڑھاپے کیلئے اور زندگی سے موت آنے تک وقت سے فائدہ اٹھائے اور نیک کاموں میں صرف کرے۔
Allah
ہمیں وقت کی ترتیب و تنظیم کو سامنے رکھ کر اس بات کا اہتمام یا کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارے وقت کا کوئی لمحہ ضائع نہ ہو ،اگر ہم یہ طے کر لیں کہ کون سی چیز یا کام ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہئے ،دوسری کون سی اور تیسری ترجیح کیا ہونی چاہئے تو ہم وقت ضائع نہیں ہونے دیں گے اور اس کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ مغربی ممالک کا ہر فرد وقت کی اہمیت سے آگاہ ہے اور اس کا تعین کرکے کامیاب اور پر سکون زندگی بسر کر رہا ہے ان ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز ہی وقت کی پابندی ہے یہاں کا کوئی شعبہ، ،ادارہ حتیٰ کہ عام زندگی میں بھی وقت کو نہایت اہمیت دی جاتی ہے نظام زندگی کو وقت سے منسلک کرکے جو کارنامے انجام دئے گئے اور جو کامیابیاں حاصل ہوئیں اس کا سہرہ وقت کے سر ہی باندھا جاتا ہے کیونکہ انسان مٹی کا پتلا ہے نہ کہ روبوٹ یا مشین کہ جب جی چاہا آن کیا جب جی چاہا آف،انسان کو پرسکون زندگی گزارنے کیلئے اسکے بنیادی حقوق کی اشد ضرورت ہوتی ہے مثلاً توانائی، اچھی غذا،اچھی رہائش ،اچھا ماحول، پر سکون نیند ، احساس ذمہ داری اور سب سے بڑھ کر وقت کی پابندی، مغربی ممالک میں حکومتوں نے روزمرہ کے استعمال کی تمام اشیاء کو وقت سے منسلک کر رکھا ہے اور اسی وجہ سے کسی فرد کا افراتفری یا بد نظمی سے واسطہ نہیں پڑتا ۔ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ آج تک نہ تو ہم نے وقت کی قدر کی اور نہ اس کی اہمیت کو پرکھ سکے یہی وجہ ہے کہ ہمارا شمار دنیا کے چند ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے، جبکہ مغربی ممالک نے وقت کی اہمیت کا بر وقت احساس کر کے دنیاوی شعبوں میں ترقی کر لی اور ہم سے آگے نکل گئے مگرہم وقت کی اہمیت کو فراموش کر کے ہر میدان میں پیچھے رہ گئے۔
پاکستان میںوقت کو ضائع کرنے میں آج کل ٹی وی اور موبائل سر فہرست ہیں ،یہ دونوں سائنسی ایجادات ہیں ایک انٹر ٹینمنٹ مشین دوسری ایمر جینسی کے لئے لیکن ان کا جادو ہم سب کے سر پر چڑھ کر بولتا ہے ہر گھر میں بچے اور خواتین ان کے دلدادہ اور عادی ہو چکے ہیں کہ کھانا پینا چھوڑ کر ان کو بے جا استعمال کئے جارہے ہیں،ان پر کنٹرول کئے بغیر ہم اپنے وقت کو قابو نہیں کر سکتے ، وقت کو ضائع کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم بیک وقت کئی کام پایہ تکمیل پہنچانا چاہتے ہیں جو کہ ناممکن ہے ،ہمیں پہلے سوچ لینا چاہئے کہ کون سا کام ضروری ہے اور کون سا غیر ضروری ،اس سے ہم اپنے وقت کو بچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور موثر طور پر بر وقت مکمل کر سکتے ہیں۔
ہمارے سامنے کئی دینی مثالیں ،دانشوروں اور سائنس دانوں کے زریں اقوال و تجربات کھلی کتاب کے مانند موجود ہیں لیکن ہم نہ تو دین کی کسی بات یا مثال پر عمل پیرا ہیں اور نہ کسی دانشور یا سائنس دان کی کہی باتوں کو عملی زندگی سے منسلک کرنا چاہتے ہیں ،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم ترقی کرنا ہی نہیں چاہتے جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جدید دور میں ہمیں دنیا کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلنا ہو گا تب ترقی کی منزلیں طے کریں گے ،لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہو گا ،جب ہم وقت کو اہمیت دیں گے اس کی قدر کریں گے تب ہی دنیا میں نام کمائیں گے ، اسلئے ضروری ہے کہ وقت کو اپنے اوپر مسلط کرنے کی بجائے اس پر حاوی ہونا اور اسے گرفت میں لینا ہی ترقی اور خوشحالی کی پہلی سیڑھی ہے ،یاد رہے جو وقت ضائع کرتا ہے وقت اسے ضائع کر دیتا ہے۔