وقت کی آہٹ میں طوفان پنہاں ہے شاید؟

Pakistan

Pakistan

پاکستان بننے سے پہلے بھی اور آج بھی انگریزوں کا یہ اصول رہاہے کہ مسلمان ملکوں کو لڑائو اور حکومت کرو۔ پاکستان بننے کے بعد وہ چلے توگئے لیکن اپنا یہ زریں اصول چھوڑ گئے جسے آج بھی ہمارے محترم سیاستدانوں نے اپنے سینے میں تعویز بناکر ڈالا ہواہے ۔ چنانچہ یہ لوگ آج بھی اپنے پیشرئوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قوم و ملک میں لڑائو اور حکومت کرو کی حکمتِ عملی پر ہی گامزن دکھائی دیتے ہیں۔ (واللہ اعلم) اور تمام لڑانے والی کاروائیوں کا مظاہرہ آئے دن آپ ملک بھر میں دیکھتے ہی رہتے ہیں۔

جیسا کہ آپ نے کل کی خبر سنی ہوگی کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے زیارت ریذیڈینسی کو بھی نہیں بخشا گیا یعنی کے ان کے دشمن آج بھی موجود ہیں جو ان کی یادگاروں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت کہاں ہے۔ محکمۂ ثقافت کہاں ناپید ہو گئی ہے کہ جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخی ورثوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کریں۔ مگر افسوس کہ دشمن بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نشانات مٹا رہے ہیں اور اربابِ اختیار کان میں روئی اور آنکھوں پر پٹی باندھے بیٹھے ہیں۔

ہمارے معزز (معذرت کے ساتھ) سیاسی لوگ انتخابی موسم کے دوران رنگ بدلنے والے کی طرح اپنا رنگ بدلتے ہیں اور خربوزوں کی مثال اپناتے پائے جاتے ہیں، بے پیندی کے لوٹوں کی طرح عوام کی طرف لڑھکتے ہیں، یہ اپنے اس فن میں اس قدر ماہر مانے جاتے ہیں کہ اچھے سے اچھا تجزیہ نگار بھی ان کے پکائے ہوئے پلائو کی نذر ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ صورتحال تو ہر انتخاب کے دوران نظر آتی ہے۔ اور اب تو یہ بات بھی ہر خاص و عام میں سیلاب کی روانی کی طرح پھیل چکی ہے کہ انتخابی موسم کے دوران ان کے دفتروں و شیش محلوں کی کھڑکیاں ہرکس و ناکس کے لئے کھل جاتی ہیں۔

ہر بڑی پارٹی کا سیاستدان عاشق نامراد کی طرح تاک جھانک شروع کر دیتا ہے،کہ کسی طرح بس ووٹ ان کے کھاتے میں ڈَل جائیں۔ان حالات میں عوام سے سیاستدانوں کے تمام شکوے گلے یک لخت سرد پانی کی طرح جم جاتے ہیں اور سب کی مشترکہ سوچ کا منبہ حصولِ اقتدار اور اپنی سیاسی پشتوں تک بندوبست کر لینا ہی قرار پاتا ہے۔ موروثی سیاست بھی کیا خوب گل کھلاتی ہے ہمارے ملک میں تویہ معاملہ کچھ زیادہ ہی پروان چڑھ چکا ہے۔ اکثر پارٹیوں میں موروثی سیاست کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔

Birds

Birds

یہ بات تو طے ہے کہ پرندے موسم تبدیل ہونے پر ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے میں ہی اپنی عافیت گردانتے ہیں اسی طرح انتخابات بھی ہمارے سیاسی پرندوں کے لئے سازگار ثابت ہوتے ہیں۔ ہاں پرندوں اور سیاست کے مکینوں میں نمایاں فرق دیکھا جا سکتاہے کیونکہ پرندے اپنے پیٹ کی حد تک ہی سفر کرتے ہیں اور سیاستدان اپنی کئی پشتوں تک کے لئے محو پرواز رہتے ہیں اسی لئے یہ عوام کو کچھ دے نہیں پاتے۔

کیونکہ ان سے کچھ بچے گا تو عوام تک ثمرات پہنچائیں گے۔ کسی نے ایک بزرگ سیاستدان سے سوال کیا تھا کہ آپ لوگ وفاداریاں کیوں تبدیل کرتے رہتے ہیں تو ان کا جواب تھاکہ آپ کا سوال غلط ہے، میں پارٹیاں نہیں بدلتا، میری پارٹی تو خود حکومت ہے، بے وفا تو حکومت ہے جو بدلتی رہتی ہے۔ اس وقت ملک ایک بار پھر انتخابی دائو پیچ کے دوراہے سے گزر کر نئی حکومت کو عوام نے راج پاٹ کا راجہ بنا دیا ہے مگر ابھی تک کسی بھی سطح پر عوامی خدمت کہیں نظر نہیں آ رہا۔نہ سرکاری ملازمین کو خاطر خواہ اضافہ ملا، نہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی آئی، نہ امن و امان کی حالت بہتر نظر آتی ہے۔اب دیکھئے کہ بجٹ کے بعد روزگار کا مسئلہ عوامی سطح تک پہنچتا ہے یا صرف سیاسی کارکنوں تک ہی محدود رہتا ہے۔

غور اور فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ انگریزوں نے لڑائو اور حکومت کرو کا اصول اپنی حکومت قائم رکھنے کے لئے وضع کیاتھا اور اس پر عمل کرتے ہوئے ملک پر قابض بھی رہے، وہ غیر ملکی تھے اس لئے ملک کی رعایا کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ پھر بھی رعایا یعنی کہ قوم یکجا ہوکر انہیں سات سمندر دور مار بھگایا، اب سوال یہ ہے کہ ان ملکی حکمرانوں کا کیا کیا جائے جو بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ انہی اصولوں پر

عمل پیرا ہیں خود بھی خونخوار جانوروں کی طرح آپس میں ٹکراتے ہیں اور پوری قوم کو آگ و خون کے کھیل میں الجھا کر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں۔یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ ملک میں کون کون سی بڑی پارٹیاں موجود ہیں لیکن لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ اس کی جڑوں سے پھوٹنے والی شاخیں جب پھل پھول دینے کے قابل ہوئیں تو زرد پتوں کی طرح بکھر جاتی ہیں۔

ایک وقت وہ بھی آیا تھاکہ جب بڑی پارٹیاں ایک سوکھے درخت کی مانند ہو گئی۔ غور کیجئے، آج ملک میں جتنی بھی بڑی پارٹیاں جو اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں یا لوٹ چکے ہیں وہ سب کی سب ایک دوسرے پر بد اعتمادی، الزام تراشی اور شکوک و شبہات کے گھیرے میں ہیں اور عوام محؤ تماشہ ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے نازک حالات میں بھی کوئی پارٹی خوش دلی یا صدق دلی سے ایک دوسرے کے قریب نہیں۔

اگر ان میں الیکشن کے موقع پر کہیں گٹھ جوڑ یا کوئی پروگرام بن بھی جاتاہے تو وہ وقتی ہی ثابت ہوتاہے اس لئے کہ آستینوں میں پلنے والے ایسا کوئی اتحاد دل سے تسلیم نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے خود ان کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچتا ہے۔ علامہ محمد اقبال کا قول آج کے حالات میں سچ ثابت ہوتا ہے کہ۔ ”قوم کیا چیز ہوتی ہے، قوموں کی حقیقت کیا ہوتی ہے اس کو کیا جانے یہ دو رکعت کے امام۔ اس کا اندازہ ملت کی قیادت کے تناظر میں بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

Parties

Parties

آج جب میں اپنی آنکھیں بند کر کے ماضی کو یاد کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ پہلے کتنے اچھے حالات ہوا کرتے تھے۔ ہر شخص آزادی سے ہر طرف آنا جاناکر سکتا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب لگتا تھا کہ ستارے اپنی روشنی بکھیر رہے ہیں اور چاند کی روشنی برف سے ڈھکے پہاڑوں کو روشن کر رہی ہے۔ ان سارے نظاروں کو دیکھ کر در حقیقت زمین پر جنت کا تصور ہونے لگتا تھا۔ لیکن آج تو اگر کسی شخص کو کہیں جانا ہوتاہے تو وہ پہلے یہ پوچھتا دکھائی دیتا ہے کہ علاقہ کون سا ہے۔ اگر اسے ایریا مناسب لگا تو ٹھیک ورنہ منع کر دینا اس کی فطرت بن چکی ہے۔

ظاہر ہے کہ حالات اور ساتھ ہی امن و امان اس قدر دگر گوں ہے کہ ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے ملک میں ہو کیا رہا ہے۔ شام کو چھٹی کے بعد سیدھے گھر پہنچنے کو ہی ترجیح دیا جانے لگاہے۔ شاید اس کی خاص وجہ حکومت کی بے توجیہی اور لاپرواہی ہے، مگر جس علاقے میں وہاں کے باشندوں کی آمد ورفت اتنی مشکل ہو وہاں عیش کی زندگی کے لئے لوگ کہاں سوچ پاتے ہیں۔

درج بالا ماحول میں تشدد اور امن کے درمیان پیچیدہ رشتے کو سمجھنا از حد ضروری ہے ۔جوں جوں وقت کا پہیہ گھوم رہا ہے لوگ ایک دوسرے سے محبت کرنا بھولتے جا رہے ہیں اور نفرتیں ان کی پیشانیوں پر نظر آنے لگی ہیں۔ خدا رب العزت ہمارے ملک کے عوام کو پھر سے ایک دوسرے کے قریب کرنے کا کوئی وسیلہ فرما دیں تو یہ ملک پھر سے محبت و اخوت کا سائبان بن سکتاہے۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ اوپر ی سطح سے یہ کام انجام دیا جائے تاکہ نچلے طبقے یہ سب کچھ دیکھ کر اسی ڈگر پر چلیں، ملک کی باگ دوڑ چلانے والے آپس میں دوستی اور محبت کا رشتہ ایسا استوار کریں کہ قابلِ تقلید بن جائے۔ جیسا کہ ہر قومی معاملے میں یہ سب لوگ یکجا ہو کر بیٹھتے ہیں اور فیصلے کرتے ہیں۔ یہی نظریہ ہماری ترقی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی