وقت کا انتظار

Sun

Sun

کہتے ہیں کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ ایک لمحہ کی غفلت سے سینکڑوں سال کی مسافت گلے پڑ جاتی ہے۔ مسیحا یا نجات دہندہ کی تلاش و آرزو ہر کسی کو عمل سے بیگانہ بنا دیتی ہے، ہاں! لیکن یہ بھی تو کہتے ہیں کہ دریا کو اپنی موج کی طغیانی سے کام ہوتا ہے، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کس کی کشتی پار لگی، کس کی درمیان میں ہے اور کس کی ہچکولے کھا رہی ہے یا ڈوب گئی ہے۔ بعض بستیاں ایسی ہوتی ہیں، جہاں سورج تو طلوع و غروب ہوتا ہے لیکن موسم ٹھٹھر جاتے ہیں۔ رُتیں نہیں بدلتیں، منظر ساکت و جامد ہو جاتے ہیں اور زندگی کے شب و روز کروٹ بدلنا بھول جاتے ہیں اور زندگی سازشوں کے ابلیسی جال میں پھڑپھڑاتی رہتی ہے۔

سیاست کے پتھریلے ریگستان میں ہر آنے والا عوام کو مسیحا اور نجات دہندہ لگتا ہے، جس کی وجہ سے عمل کرنے کی عادت چھوٹ جاتی ہے، خواہشات کے سائبان سے مصائب کی بارشوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کم و بیش انہی حالات سے دو چار ہے۔

ایک جیسی سیاست، ایک جیسے بیزار کن موضوعات اور مقدر بن جانے والے معمولات سے چھٹکارہ ملتا دکھائی نہیں دیتا۔ سوکھے پتوں کے ڈھیر کی طرح مستقبل جل رہا ہے۔ کہیں درد کی چنگاری سلگتی دکھائی نہیں دیتی، بس دل سے دھواں نہیں اٹھ رہا ہے، ہر موج کے جال میں سینکڑوں مگر مچھ اپنے جبڑے کھولے شکار کی تالش میں ہے۔ ایک دھماکے کی گونج ختم نہیں ہوتی کہ دوسرے دھماکے کی گونج سنائی دے جاتی ہے جس کی وجہ سے ہر دردِ دل انسان کی دل پتے کی طرح لرز جاتا ہے۔ کچھ دنوں کی خاموشی اور بدلتے سیاسی ماحول اور اور آپریشن کی باز گشت کی وجہ سے گلو خلاصی کی امیدوں کی روشنی، ظاہر ہے ان مہیب سایوں کو کسی طرح برداشت نہیں ہوتی ، جن کا روشنی و حقائق سے ازلی دشمنی کا رشتہ ہے۔

شہرِ قائد میں آج بھی علی الصبح تین نئے دھماکوں کی گونج نے لوگوں کو لرزا دیا ہو گا، کیونکہ یہ وقت تھا لوگوں کے نوکری پر جانے کا، بچوں کے اسکول ، کالج اور جامعات میں جانے کا، لیکن ان گرج دار دھماکوں کی آواز نے ہر طرف ایک افرا تفری پھیلا دی، ہر کسی کا سیل فون Busy ہو گیا، جن کو جب جب اطلاع ملی وہ اپنے پیاروں کی خیریت کے لیئے موبائل کے کی پیڈ پر انگلیاں پھیرتے نظر آئے۔ یہ سوال تو فضول ہو گا کہ آخر حکومت کیا چاہتی ہے، کیونکہ میڈیا پر ہر جماعت کے لوگ اپنے اپنے خیالات کو اُجاگر کرتے رہتے ہیں۔ جس سے عام شہریوں کو بھی ان کے مائنڈ سیٹ کا پتہ چلتا رہتا ہے کہ کون کیا چاہتا ہے؟ بات ظاہر یوں ہوتی ہے کہ جیسے کسی کا دبائو ہے جو ابھی تک برداشت کے نشتر چلا رہا ہے۔

یہ باتیں تو ایسی تلخ حقیقتیں ہیں کہ جو بھلائے نہیں بھولتیں مگر اس کے علاوہ بھی اور غم و اندوہ کی باز گشت ہے اس بیچارے معصوم عوام کی زندگیوں میں جس سے میں تو کیا آپ سب بھی بخوبی واقف اور مانوس ہیں۔ ذرا ماضی میں جھانکیئے یعنی الیکشن کے زمانے یاد کیجئے۔ کب کب کن کن جماعتوں نے عوام کی داد رسی کے وعدے وعید کیئے تھے۔ مہنگائی کے خاتمے کی سرگزشت سنائی تھی، بیروزگاری جیسے لعنت کے خاتمے کی نوید سنانے کے وعدے کیئے تھے۔

Terrorism

Terrorism

دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی اور کرپشن کو مٹی میں ملانے کی بات کی تھی۔ پیٹرول اور ڈالر کے نرخ کو کم کرنے کی خوشخبری دینے کی بات کی تھی، اب یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ اُن میں سے کون اقتدار میں ہے اور کون اپوزیشن میں، اور کس نے زیادہ وعدے کیئے تھے اور کس نے کم۔ مگر کیا یہ وعدے پورے کر دیئے گئے ہیں؟ کیا اس ملک سے دہشت گردی ختم ہوگئی ہے؟ کیا یہاں کے عام لوگوں کو نوکری میسر آ چکی ہے؟ کیا مہنگائی پر قابو پا لیا گیا ہے؟ کیا پیٹرول کے نرخ اور ڈالر کے ریٹ میں استحکام پایا جاتا ہے؟ ان میں سے کوئی بھی وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔

یعنی کے یہ وعدے صرف انتخابات کے وعدے تھے، ووٹ ڈالنے سے پہلے کے وعدے تھے، ووٹ ڈالنے کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہوگا اس کا وعدہ کسی نے نہیں کیا۔ اور ویسے بھی سیانے کہہ گئے ہیں کہ: ”وہ وعدے ہی کیا جو پورے ہو جائیں”خیر جناب! آپ اپنی ہمت کو جُٹائے رکھیں اسے پست نہ ہونے دیں کیونکہ اگر آپ کی ہمت پست ہوگئی تو سب کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔ اور مجھے یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ ابھی مایوسی کے اندھیرے میں امیدوں کا چراغ روشن ہے بس اگر ضرورت ہے تو انہیں عمل کی کٹھنائیوں سے گزرنے کی ضرورت ہے۔ تھوڑی دیر کے لیئے سیاسی وفاداریاں، ذاتی مفادات، جماعتی عصبیت اور مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر کم از کم مشترکہ پروگرام طے کر لیں اور ان پر اتفاقِ رائے پیدا کرکے رائے عامہ ہموار کر لی جائے، پھر کوئی طوفان عزمِ راسخ کی کشتی کو ڈبو نہیں سکتا۔ بصورتِ دیگر ہر ایسے واقعہ کے بعد مرثیے پڑھے جائیں گے، کھوکھلے بیانات جاری ہوں گے، گرما گرم تقریریں اور قرار دادیں منظور ہونگی، اور زندگی لگے بندھے معمولات کی راہوں پر چلتی رہے گی تو ہم سب (عوام) اصلاح احوال کی امید کیسے کر سکتے ہیں، جن خواہشوں اور قرار دادوں کے پس پشت عوامی طاقت نہ ہو، پارلیمنٹ متحد نہ ہو، انہیں ٹھوکروں پر رکھا جانا چاہیئے، آنکھوں کا سُرمہ نہیں بنانا چاہیئے۔

آج ملک کی فضا میں فرقہ پرستی کی بو کو صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آج بھی پُر کشش ایشوز تلاش کرنے اور عوام کو بے مطلب کی بحثوں میں الجھانے کے راستے ڈھونڈیں جا رہے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو اس میں عوام ہی ایندھن بن رہے ہیں۔ ہر موج کے جال میں سینکڑوں مگر مچھ اپنے مہیب جبڑے کھولے شکار کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ نہ جانے ابرِ بہار کے اس قطرے پہ کیا گزرے جو سیپ کے منھ میں گہر بننے کے انتظار میں ہے۔

جمہوریت کی کھیتی سے اب تک روزی نہ پا سکنے والے حرماں نصیب دہقاں اکٹھے ہو کر ہر خوشہ گندم کو جلانے کے در پے نظر آتے ہیں، سوکھے پتوں کے ڈھیر کی طرح ہمارا مستقبل جلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے لیکن کسی گوشے سے تشویش و پریشانی کی لہر دکھائی نہیں دیتی، بلکہ شرارت آمیز مسکراہٹ رقص کرتی دیکھی جا سکتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ جو لوگ اس چکی میں پس رہے ہیں یا جن کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے وہ آنے والی سُرخ آندھی سے بے خبر ہیں۔ باہمی اخوت، آپسی ہمدردی اور مثالی محبت پر اپنا کل سنوارنے کی کوشش کریں، کسی کے پائوں میں کانٹا بھی چبھے تو ہر ایک کو اس کی چبھن اور کسک محسوس کرنی چاہیئے، اسی کا نام اخوت ہے۔ اور ہمارے ملک کو اس کی اشد ضرورت ہے۔ علامہ اقبال نے اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے یہ پیغام دیا ہے:

ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہوجا محبت کی زباں ہو جا

ان حالات میں ہمیں تحمل، بردباری اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت میں شاید مزید اضافہ دیکھنے کو ملے۔ ہمیں خاموشی اور عملی اقدامات کے ذریعے دشمنوں کے ہر وار کو کند کرنا ہے۔ جذباتی رد عمل سے ان طاقتوں کو موقع فراہم نہیں کریں، جو چاہتی ہیں کہ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو۔ عوام کے مستقبل کے فیصلے انہی خطوط پر ہوں جس میں ان کی بھلائی کارفرماں ہو۔ ورنہ سوائے نقصان کے اور کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ افراد کو وجود ملت سے ہے اور ملت کا وجود وحدت سے ہے، جس طرح پتوں کی سر سبزی و شادابی درخت سے وابستہ ہے اسی طرح افراد کی زندگی اور اس کا نمو ملت سے مربوط ہے۔ اس لیئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پھر سے ایک بار تمام نفرتوں اور عداوتوں کو بھلا کر الفت و محبت کی شمع روشن کریں اور اخوت و محبت کے جاوداں پیغام کو عام کریں۔ عوام کو مکمل طور پر شہری و دیہی حقوق حاصل ہو جائیں، کاش کہ ایسا ہو جائے اور سب ایک ہو جائیں، پورے ملک میں الفت و محبت، اخوت و محبت، اتحاد و اتفاق کی ایک بار پھر سے فضا بن جائے۔ آمین

Jawed Siddiqi

Jawed Siddiqi

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی