تحریر : شہزاد حسین بھٹی 06 اکتوبر 2016 ء کو انگریزی اخبار ڈان میں صحافی سیرل المائڈہ نے وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اہم اجلاس کے حوالے سے خبر دی۔ اس خبر میں غیر ریاستی عناصر یا کالعدم تنظیموں کے معاملے پر فوج اور سول حکومت میں اختلاف کا ذکر کیا گیا تھا تاہم حکومت اور فوج دونوں نے اس خبر کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیا تھا۔29 اپریل 2017 ء کو وزیراعظم نواز شریف نے ڈان لیکس سے متعلق انکوائری کمیٹی کی سفارشات منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ خارجہ امور سے متعلق معاون خصوصی طارق فاطمی سے عہدہ لے لیا ہے۔جبکہ اس سے پہلے سینٹر پرویز رشید سے وزیر اطلاعات کا عہدہ واپس لیا جاچکاتھا۔وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے انکوائری کمیٹی کے 18ویں پیرے کی منظوری دی ہے۔ بیان میںمزید کہا گیا کہ وزارت اطلاعات و نشریات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین کے خلاف 1973 کے آئین کے ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن (ای اینڈ ڈی) رولز کے تحت کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ظفر عباس اور سرل المائڈہ کا معاملہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے سپرد کر دیا جائے جبکہ اے پی این ایس سے کہا جائے گا کہ وہ پرنٹ میڈیا کے حوالے سے ضابطہ اخلاق تشکیل دے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے ڈان لیکس کے حوالے سے جاری کیے گئے اعلامیہ کی تردید کر دی ۔انھوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا: ‘ڈان لیکس کے حوالے سے جاری کیا گیا اعلان انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے۔ یہ نوٹیفیکیشن مسترد کیا جاتا ہے۔ڈان لیکس کے معاملے پر فوج اور حکومت کے درمیان اتفاق رائے تاحال نہیں ہو پایا ہے جبکہ حکومت یہ چاہتی ہے کہ وزارت داخلہ کی طرف سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن سے پہلے فوج اور حکومت کے درمیان اتفاق رائے ہو جائے ۔ اس سلسلے میں وزیر داخلہ چوہدری نثارکی وزیر اعظم سے پانچ دنوں میں پانچ ملاقاتیں ہو چکی ہیں اورابھی تک اتفاق رائے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی جبکہ وزیر داخلہ چاہتے ہیں کہ معاملہ تین دنوں کے اندر حل ہو جائے وگرنہ یہ معاملہ التوا کا شکار ہو کر حکومت اور فوج کے درمیان خلیج حائل کر سکتا ہے۔حکومتی حلقوں کا کہنا یہ ہے کہ وزیر اعظم ہائو س کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کوفوری طور پر مسترد کیے جانے سے حکومت کی سبکی ہوئی ہے ۔ اگرحکومت فوری طور پر یہ نوٹیفکیشن واپس لے کر نیا جاری کرتی تو حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔اطلاعات یہ ہیں کہ وزیر اعظم ابھی تک اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اوروہ مزید کوئی قربانی دینے سے انکاری ہیں۔
یہ معاملہ اتنا مشکل بھی نہیں کہ حل نہ ہو سکے اور اتنا آسان بھی نہیں کہ اس پر عمل درآمد مشکل ہو۔ ڈان لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد ان شکوک و شبہات نے مزید تقویت پکڑی کہ ملکی سلامتی سے متعلقہ معاملات وزیر اعظم ہاوس میں محفوظ نہیں ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ وزیر اعظم کے ہمارے ازلی دشمن بھارت کے وزیر اعظم اور دیگرجندال جیسے لوگوں سے تعلقات اور کلبھوشن یادو کے بارے میں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے اعترافی بیان کے بعدلب کشائی تک نہ کرنا ، ایک عام پاکستانی کے اس تاثر کی نفی کرتا ہے کہ بھارت سے ہمارے موجودہ حکمرانوں کا کوئی گٹھ جوڑ نہیں ہے۔ ہماری فوج کو سرحدی محازوں کے علاوہ اندرونی محازوں کی بھی نگرانی کرنی پڑ رہی ہے۔ آپریشن ردالفساد اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ فوج جیسے ادارے کی عزت و ناموس کو دائو پر لگانا مسلم لیگ ن کی حکومت کو زیب نہیں دیتا۔
وزیر اعظم نواز شریف ایک بار پھر مغل اعظم بننے کے زعم میں مبتلا ہیں اور یہ طاقت کا نشہ جب ٹوٹے گا جو اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کر لے جائے گا۔نواز شریف اپنے ماضی کے تجربوں کو اپنے سامنے رکھیں اور ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ کے مندرجات پر من و عن عمل کریںچاہے اس کے لیے ان کے گھر کے لوگ ہی کیوں نہ ذمہ دار ہوں۔وگرنہ قوم اور فوج تو شاید معاف کر دے مگر تاریخ یہ ضرور لکھے گی کہ ایک وزیر اعظم ایسا بھی پاکستان میں گزرا تھا جو ملوکیت کی اس معراج پر تھا کہ اپنے خاندان کے علاوہ باقی پورے ملک کو دائو پر لگانے سے گریز نہیں کرتا تھا۔ وزیر اعظم کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمیشہ گھر کا بھیدی ہی لنکا ڈھاتا ہے۔باقی رہی اپوزیشن تو وہ ابھی ڈیڈھ اینٹ کی مسجد بنا رہی ہے۔ ان کے لیے مشورہ یہی ہے کہ ابھی مناسب وقت کا انتظار کیجئے۔الگ الگ جلسیاں کرنے کے بجائے ایک متفقہ نکات کے تحت متحد ہوکر مشترکہ جدوجہد کرنے کی کوشش کرو۔ جس دن تمام اپوزیشن متحد ہو گئی اس دن پاکستان میں نیا سویرہ ہو گا۔