ملک کے حالات و واقعات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، اور آج کل تو سیاسی ملاکھڑا ملک کے طول و عرض میں زور پکڑ گیا ہے۔ خان صاحب نے آزادی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے تو دوسری طرف قادری صاحب نے انقلاب کا نعرہ بلند کیا ہوا ہے۔ اور ان کے ساتھ ملک کے کئی بڑے نام بھی جُڑے ہوئے ہیں جن میں شیخ رشید، چوہدری برادران، اور دیگر افراد بھی شامل ہیں۔ اب دیکھئے کہ چودہ اگست کے بعد کیا ہوتا ہے۔ کیا مسلم لیگ کی حکومت واقعی گرتی ہے یا آزادی مارچ اور انقلاب والے گھر جاتے ہیں۔ ویسے قادری صاحب نے جتنا بھی اعلان غریبوں کے لئے کیا ہے اور صوبوں کے حوالے سے جو باتیں کی ہیں وہ واقعی خوش آئند ہے۔ مگر کیا ایسا ممکن ہے ؟جو کچھ بھی ہو بس عوام کے مفاد میں ہو۔ امن و امان درہم برہم نہ ہو، اور نہ ہی آزادی مارچ اور انقلاب کے راستے میں تشدد اور گرفتاریاں ہوں کیونکہ یہ سب کچھ جمہوریت کا حسن ہیں اور اس میں گرہن نہیں لگنا چاہیئے۔وطنِ عزیز کے لئے تو میں یہ شعر درج کرنا چاہوں گا کہ:
دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے کہیں جگہ نہ ملی میرے آشیانے کو
عوا م کے بارے میں کیا کہوں کہ مجھ سمیت میرے تمام ہی دوسرے ساتھی صاحبان لکھ لکھ کر تھک چکے ہیں مگر عوام کی زندگی جیسے مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، روٹی اور اس جیسی دیگر چیزوں کے درمیان ساکت ہوگئی ہیںاور ان میں ذرا برابر بھی بدلائو دیکھنے میں نہیں آرہا ہے۔ عربی زبان کا ایک نہایت ہی مشہور مقولہ ہے ”صاحب البیت ادریٰ بما فیہ ” یعنی صاحبِ خانہ ہی جانتا ہے گھر کی زیادہ اچھی صورتحال ، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گھر سے لے کر دنیا کی تمام چیزیں خواہ وہ کوئی ادارہ ہو یا انسٹی ٹیوٹ یا پھر کوئی ملک ہی کیوں نہ ہو اس کو چلانے اور کنٹرول کرنے والے ہی اس کی حقیقی اور صحیح صورتحال سے واقف ہوتے ہیں کہ اسے کس طرح سے چلایا اور ڈیل کیا جائے گا اس کی مالی حیثیت کیا ہے اور اس کے اخراجات کیا ہیں؟ اسے کن کن مدوں میں صرف کرنا ہے اور کن کن ضرورتوں کو روکنا ہے اور کیسے تیز رفتار دنیا کا مقابلہ کرنا ہے مگر ہمارے حکمران نہ تو نوکری پیشہ افراد کا خیال کرتے ہیں اور نہ ہی مزدوری کرنے والوں کا۔
سرکاری نوکری کرنے والوں کے لئے دس فیصد اضافہ کرکے بھول جاتے ہیں کہ بجلی ، گیس، پانی کے بل میں جو اضافہ ہوگا کیا وہ اُس دس فیصد سے پورا ہو جائے گا، یا پھر روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں جو روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے اُسے یہ لوگ پورا کر سکیں گے یا نہیں۔ اگر سرکاری ملازم اپنے اخراجات کو پورا کرنے سے قاصر ہے تو مزدور طبقہ کس طرح اپنے گھر کا چولھا جلا پاتا ہوگا۔ یہ سب چیزیں نہایت ہی بصیرت اور دانائی سے تعلق رکھنے والے کام ہیں جسے ہر کس و ناکس صحیح ڈھنگ سے انجام نہیں دے سکتا ہے۔ کیونکہ زبانی دعوے کرنا اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا تو نہایت ہی آسان کام ہے بلکہ زیادہ صحیح لفظوں میں سب سے آسان کام ہے؟ کسی صاحبِ فراست کے بقول اگر کسی سے کوئی انتقام لینا ہو تو اسے کوئی ذمہ داری سونپ دی جائے؟ اور پھر اس کا جائزہ لیا جائے کہ اس کے اندر کتنی صلاحیتیں ہیں اور کس طرح سے وہ اپنے فرائض کو انجام دیتا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بصیرت اور دانائی ناپید ہو چکی ہے اور صرف ٹانگیں کھینچنے کا کام ہو رہا ہے۔ عوام بھوکے سونے پر مجبور ہیں اور شاہی خرچ میں کسی طرح بھی کمی نہیں ہو رہی ہے۔
Inflation
غریبی، بے روزگاری، بھوک، افلاس اور مہنگائی سے تڑپتے ہوئے عوام کو جو سنہرے خواب دکھائے گئے تھے وہ آہستہ آہستہ کرکے چکنا چور ہو چکے ہیں۔ جس مہنگائی اور بے روزگاری کو ختم کرنے کا مضبوط وعدہ کرکے شریف سرکار اقتدار میں آئی تھی ، وہ اس کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یوں عوام آج بھی کسمپرسی میں ہی گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔
دوسری طرف ملک بھر میں شیطان صفت لوگوں نے انسانیت کا جامہ اتار پھینکا ہے،تہذیب و شائستگی کا جنازہ نکال کر مذہبی و سماجی حدوں کو پار کر لیا ہے اور بے شرمی انتہا تک پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں اسی طرح روح فرسا وارداتیں انجام پاتی ہیں ، جن سے آج کل ملک نہا چکا ہے۔ تواتر اور تسلسل کے ساتھ انسانی قدروں کو بے رحمی سے پامال کرکے ملک کے شریف شہریوں کو خون کے آنسو بہانے پر مجبور کر دیا گیا ہے، بدمعاشوں، غنڈوں، شر پسندوں اور شرابیوں، کبابیوں نے اس ملک کے سیدھے سادھے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے، ان بدقماش لوگوں نے اس ملک کو جہنم زار بنا کر رکھ دیا ہے۔ روزانہ قتلِ عام، کہیں نہ کہیں وارداتیں، ڈاکہ زنی، گولیوں کی گھن گرج، اغوا کی وارداتیں، تاوان کی باتیں،کیا بانی پاکستان نے اسی لئے الگ وطن بنا کر دیا تھا کہ یہاں پر یہ سب کچھ برپا ہوتا رہے اور حکمران صرف تماشہ دیکھتے رہیں۔ یہ تو بھلا ہو پاک افواج کا کہ جنہوں نے ملک کے کونے کونے میں امن و امان قائم کرنے کے لئے آپریشن شروع کر رکھا ہے تاکہ عوام سکون سے جی سکیں، خدا ربِّ ذوالجلال انہیں اس مقصد میں کامیاب کرے، آمین۔
اقتدارِ اعلیٰ کے لیڈران کے جو نعرے اور دعوے تھے، ان میں کہیں سے بھی تکمیل ایفائے عہد کی خوشبو نہیں آرہی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ مستقبل قریب میں عوام کو کوئی خاص راحت و سکون نہیں ملنے والی۔ ایسے میں خان صاحب اور قادری صاحب نے ملک میں آزادی مارچ اور انقلاب کی نقل و حرکت شروع کر رکھی ہیں، اگر چہ ان کے دعوے اور وعدے عوام کے دلوں میں اُتر رہے ہیں مگر کیا یہ لوگ اپنے دعوے کو سچ کر دکھائیں گے۔ یا پھر ٦٨ویں یومِ آزادی پر بھی عوام کو لالی پاپ دے کر بہلایا جائے گا۔ جذباتی تقریروں سے لوگ جذباتی ہوکر آپ کے ساتھ تو شامل ہو رہے ہیں مگر کیا آپ لوگ ان کے جذبات کو خوشیوں میں بدلیں گے، اگر ایسا ہو پاتا ہے تو شاید ملک کی تقدیر بدل جائے جیسا کہ رمضان المبارک کے مہینوں میں قادری صاحب نے ”انقلاب کے بعد پاکستان کیسا ہوگا” کے پروگرام بتائے ہیں۔ عوام تو بس یہی آس لگائے بیٹھی ہے کہ کوئی آئے اور اس ملک کو اور یہاں کے بسنے والوں کو ایک دھاگے میں پِرو کر بلند پرواز عطا کرے۔
پاکستان کے عوام ٦٨ سالوں کے بعد بھی بھوک مَری، بے روزگاری کے شکار ہیں، پینے کے صاف پانی کو ترس رہے ہیں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھگت رہے ہیں، نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے دَر دَر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں عوام اپنے پیاروں کے لاشے اُٹھاتے اٹھاتے تھک چکے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نواز حکومت نہ رہے ، بلکہ میرا ماننا تو یہ ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ کے ایوانوں میں جس کا بھی راج رہے انہیں اس ملک کی ترقی کا فی الفور سوچنا ہوگا۔ اور یہاں بسنے والے عوام کو خوشیاں فراہم کر نا ہوگا اور خوشی ایسی ہو جس سے ان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو سکیں، انہیں روزگار مہیا ہو جائے، نوکریاں میرٹ پر دی جائیں نہ کہ پرچی پریا پھر رشوت دینے پر؟ لوڈ شیڈنگ سے نجات دلائیں، مہنگائی کا خاتمہ کریں، جو بھی حکمران ایسے کام کر لیں گے عوام یقینا انہی کے ساتھ ہونگے۔ اور جب عوام اس طبقہ کے ساتھ ہونگے تو انہیں دوبارہ اقتدار میں آنے پر بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہو گا۔