ویسے تو ہمارے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں یہ بات نقش ہے مگر پھر بھی قلم بضد ہے کہ ان کی تفصیلات سے کاغذ کو سیاہ کیا جائے تو جناب ہم لکھنے والے لوگ تو ہر وقت ہی قلم اور ہاتھ کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں کیونکہ جب آمد کا سلسلہ شروع ہو جائے تو بھلا قلم کی روانی پھر کہاں رُکتی ہے۔ لیجئے آپ بھی ان تفصیلات سے آشنا ہو جائیں۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں کی غلامی میں سالوں تک رہنے اور اس کے بعد بھی ان کی جنبشِ اَبرو پر اپنی پالیسیاں مرتب کرنے والی حکومتوں کے ماتحت عوام الناس کا اب عمومی طور پریہ ذہن بن چکاہے کہ دین اور دنیا دونوں یقینی طور پر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
آج کل یہ فکر و نظر خوب پروان چڑھ رہاہے کہ مذہب و ملت کا اجتماعی معاملات، معیشت و تجارت، سیاست و حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔مذہب صرف شادی بیاہ، نکاح، طلاق اور وفات کی چندرسومات ادا کرنے کا نام ہے۔ اس کا دائرہ محض عبادت گاہوں کی چار دیواری تک محدود ہی ہے جبکہ ہماری باقی زندگی میں مذہب کی مداخلت ایک غیر فطری اور نقصان دہ عمل ہے جو ہماری ترقی میں حائل رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے، بلکہ اسلام کے ایسے زریں اصول ہیں جن پر جوبھی قوم یا ملک عمل کرے گا وہ ترقی کے دورس نتائج پر پہنچے گا۔
آپ کو شاید معلوم نہ ہوکہ ایک مرتبہ علامہ محمد اقبال مسولینی سے ملے تو دورانِ گفتگو علامہ نے حضور کی اس پالیسی کا ذکر کیاکہ شہری آبادی میں غیر ضروری اضافے کے بجائے دوسرے شہر آباد کئے جائیں۔مسولینی یہ سن کر مارے خوشی کے اُچھل پڑا۔ کہنے لگا شہری آبادی کی منصوبہ بندی کا اس سے بہتر حل دنیا میں موجود نہیں ہے۔”آج سے چودہ سو سال پہلے حضور ۖ نے حکم دیاتھامدینہ کی گلیاں کشادہ رکھو ۔گلیوں کو گھروں کی وجہ سے تنگ نہ کرو۔ہر گلی اتنی کشادہ ہو کہ دو لدے ہوئے اونٹ آسانی سے گزر سکیں۔”آج دنیا چودہ سو سال بعد اس حکم پرعمل کر رہی ہے۔شہروں میں تنگ گلیوں کو کشادہ کیا جا رہاہے۔
آپ ۖ کا حکم تھاکہ مدینہ کے بالکل درمیان میں مرکزی مارکیٹ قائم کی جائے۔ اسے ”سوقِ مدینہ ”نام دیاگیا۔آج کی تہذیب یافتہ دنیاکہتی ہے کہ جس شہر کے درمیان مارکیٹ نہ ہو وہ ترقی نہیں کر سکتا۔ آپ ۖنے کہا تھا”تمہاری مارکیٹ ہے اس میں ٹیکس نہ لگائو آج دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مارکیٹ کو ٹیکس فری ہوناچاہئے۔آج دنیابھرمیں ڈیوٹی فری مارکیٹ کا رجحان زوروں پر ہے۔حضور ۖ نے ذخیرہ اندوزی سے منع کیا۔آج دنیا اس حکم پر عمل کرتی تو خوراک کا عالمی بحران کبھی پیدا نہ ہوتا۔
Muhammad s.a.w.w
آپ ۖ نے فرمایا تھاکہ سود اور سٹے سے نفع نہیں نقصان ہوتاہے،آج عالمی مالیاتی بحران نے اس کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔کل کے ارب پتی آج کشکول گدائی لئے پھر رہے ہیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو منع کیاگیاکہ درختوں کو نہ کاٹو ۔کوئی علاقہ فتح ہو تو بھی درختوں کو آگ نہ لگائو۔آج ماحولیاتی آلودگی دنیا کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔عالمی درجہ حرارت بڑھ رہاہے۔ گلیشئر پگھل رہے ہیں۔گرمی بڑھ رہی ہے۔ یہ سب کچھ درختوں اور جنگلات کی کمی کی وجہ سے ہو رہاہے۔ حضرت عمر کے زمانے میں ایک شخص نے مدینہ کے بازار میں بھٹی لگا لی۔
حضرت عمر نے اس سے کہا کہ تم بازار کو بند کرنا چاہتے ہو؟ شہر سے باہر چلے جائو اس کام کے لئے۔ آج دنیا بھر میں انڈسٹریل علاقے شہروں سے باہر قائم کئے جا رہے ہیں۔ رسولِ اکرم ۖ مدینہ کے باہر ” محی النقیع ” نامی ایک سیرگاہ بنوائی۔وہاں پیڑپودے اس قدرلگوائے کہ وہ تفریح گاہ بن گئی۔رسول اللہ ۖ خود بھی وہاں آرام کے لئے تشریف لے جاتے۔آج صدیوں بعد ترقی یافتہ شہروں میں پارک قائم کئے جا رہے ہیں۔ شہریوں کی تفریح کے لئے ایسی تفریح گاہوں کو ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ نبیٔ کریم ۖ نے مدینہ کے مختلف قبائل کو جمع کرکے ” میثاقِ مدینہ ” تیارکیا۔باوَن دفعات پر مشتمل یہ معاہدہ دراصل مدینہ کی شہری حکومت کادستور العمل تھا۔ اس معاہدے نے جہاں شہر کی ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا، وہیں خانہ جنگیوں کو ختم کرکے مضبوط قوم بنا دیا۔
حضور اکرم ۖ کی سیرت دیکھیں اور دنیا میں نام کمانے والے حکمرانوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیامیں غلغلہ ہے ۔مارٹن لوتھرکی انقلابی جد و جہد کا غریبوں، مظلوموں اور امریکہ کے سیاہ فام باشندوں کو اس نے جینے کا شعور دیا۔ اس نے کالے انسانوں کی غلامی ختم ہونے کا خواب دیکھا اور پھر اس خواب کو پورا کر دکھایا، لیکن آپ ۖ کی سیرت کو دیکھیں۔ آپ نے جاہل، خونخوار اور وحشی قوم کو تہذیب، اخلاق اور تابندہ روایات کا درس دیا۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے سے لوگ چند سالوں میں قیصر و کسریٰ کے حکمران بن گئے۔
دنیا کی وہ ترقی یافتہ حکومتیں ان کے زیرِ نگیں آگئیں۔ کل کے غلام چند سالوں میں ہی حکمران بن بیٹھے۔ لوگ متاثر ہیں۔ نیلسن منڈیلا کی طویل اور صبرآزماجد و جہد سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے برسوں گزارنے کے باوجود وہ ایک قدم پیچھے نہیں ہٹا،اور اس کے مؤقف میں کوئی لچک نہ آئیآج لیٹن اور کارل مارکس کی معاشی حکمت عملیوں کا چرچا ہے۔شہرہ ہے ان کی غریب نوازی کا مگر یہ” غریب نواز ”خود تومحلوں میں رہائش پذیر رہے۔
Gold mountain
مگرآپ اس بادہ نشین کاحل دیکھئے جسے سونے کے پہاڑ پیش کئے گئے مگر اس نے کہامیں تو ایک دن کھانا کھا کر شکر اور دوسرے دن بھوکا رہ کر صبر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ کچے مکان اور جھونپڑے میں سویا، اس کا بستر کھجور کی چھابی سے بناہوا تھا۔آپ کا طرزِ زندگی انتہائی سادہ تھی۔بھوک کی وجہ سے پیٹ پرپتھربندھے ہوتے تھے لیکن گھر میں (٩) تلواریں لٹک رہی تھیں۔ اسرائیلی وزیراعظم گولڈ ہ مائرہ نے لکھا ہے کہ جس وقت اسرائیل عرب جنگ ہو رہی تھی۔ اس وقت مجھے مسلمانوں کے پیغمبر کی زندگی کا وہ پہلو یاد آ گیاجب چراغ میں تیل نہیں تھا مگر دیوارپر (٩) تلواریں لٹک رہی تھیں۔دنیا کی تمام بڑی اور اہم شخصیات کا بائیو ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں یہ سب سادگی پسندتھے۔
آج انگریز تو ہمارے نبی کی باتوں کو یاد کر لیتا ہے مگر ہم مسلمان ہوکران کی باتوں کی طرف، ان کے عملی اقدامات کی طرف، ان کی اچھائیوں کی طرف بھولے سے بھی توجہ نہیں دیتے۔ کتنے شرم اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ذخیرہ اندوزوں نے روز مرہ کی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کر کے مہنگائی کا طوفان برپا کیا ہوا ہے جبکہ ہمارے نبی ۖ نے ذخیرہ اندوزی کو منع کیا تھا۔ آج دنیا ان کے کاموں اور باتوں کی تقلید میں ترقی کے منازل طے کر رہی ہے اور ہم ان کی باتوں کو بھلا کرزندہ درگور ہو رہے ہیں۔ اپنا آخرت برباد کر رہے ہیں۔
آج ہم ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں جبکہ نبی کریم ۖ نے مسلمانوں کو بھائی بھائی کہا ہے۔ کیسی اندھیر نگری ہے کہ ہوش و حواش رکھنے والے لوگ پتہ نہیں کیوں اپنے ہوش و حواش میں موجود نہیں ہیں اور وہ سارے کام انجام دینے پر رضامند دکھائی دیتے ہیں جن کے لئے اسلام نے،نبی اکرم ۖ نے ،سختی سے منع فرما دیا ہے۔ نبی کریم ۖ نے سود کے لین دین سے منع فرمایا ہے۔
مگر ہمارے حکمران سمیت عوام بھی سودی کاروبار کو فوقیت دینے میں محو نظر آتے ہیں۔ حکمران آئی ایم ایف سے کسی طور بھی اپنا ناطہ توڑنا نہیں چاہتے چاہے وہ حکومت کسی کی بھی ہو۔آئی ایم ایف سے ناطہ توڑنے کا نعرہ توبہت لگایا جاتا ہے۔ مگر اس پر عمل در آمد نہیں کیا جاتا کیونکہ اگر ایسا ہو گیا توان کے خزانے کا کیا ہو گا؟ آج وقت ہے کہ ہم اپنے پیارے نبی ۖ کی باتوں پر عمل کریں ان کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہو جائیں تاکہ دنیا اور آخرت کے دروازے ہمارے لئے واہ رہ سکیں۔