تحریر : شیخ کرامت علی ہم پاکستانی ہر مسلئے کو گھسیٹنے کے عادی ہیں چاہے وہ پاکستانی قانون ساز ادارے سے وابسطہ ہوں، قانون نافذ کرنے واے پاکستانی ہوں یا پھر ہماری عدالتوں میں براجمان معزز و محترم پاکستانی ہوں۔ ان سب میں جو قدر مشترق ہے وہ ہے پاکستانی۔ یوں تو ہم”ایک”نہیں ہیں لیکن ہمارے بہت سارے کام اور روئیے ایسے ہیں جو ہمیں بے ساختہ پاکستانی کہلوانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ ایک لفظ استعمال کررہا ہوں”جگاڑ”یہ وہ لفظ ہے جو پاکستانی خصوصیت میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کا مطلب ہے کسی بھی مسلئے کا”بے قاعدہ حل”۔ برائے مہربانی لغت میں مت تلاش کیجئے گا۔
بات ہو رہی تھی مسائل کو طول دینے کی، شائد آپ کو بطور پاکستانی یہ بات ناگوار گزری ہو مگر اب آپ اپنے مزاج کا مشاہدہ کر لیجئے۔ ہمارے سرکاری ادارے تو طول دینے کے مزاج کے داعی ہیں کسی کام کو طول دینا تو کوئی ان اداروں میں تعینات اعلی سے اعلی اور ادنی سے ادنی ملازم سے سیکھ سکتا ہے۔ طوالت سے نجات کیلئے ایک راستہ اور بھی ہے مگر اس کا تذکرہ نہیں کر رہا۔ عارض گزشتہ چار سالوں سے ایک ایسے ہی سرکاری ادارے کی اس قابلیت سے ذاتی طور پر مستفید ہوچکا ہے اوردوسرے ادارے سے گزرے ہوئے دو سالوں سے مستفید ہو رہا ہوں۔
بلدیاتی اداروں نے آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیا، کڑوڑوں روپے کی مشینری خراب ہونے لگی، پاکستان کا سب سے اہم اور بڑا شہر کراچی کچرے کا ڈھیر ایک دن میں تو نہیں بن گیا، کوئی ذمہ داری نہیں لے رہا کوئی مسلئہ کو مسلئہ ہی نہیں سمجھ رہا۔ لگ بھگ 2 کڑوڑ کی آبادی والا بین الاقوامی نوعیت کا شہر بدبو اور کچرے کا ڈھیر بنتا چلا گیا۔ ہر معاملے کو طول دینا مصلحت ہے یا سیاست اسے سمجھانا بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ اس گتھی کو سمجھنا۔ ایسے مزاج کی تربیت کیسے ہوئی؟ جہاں تک کھلی آنکھوں سے دیکھ کر سمجھ آتا ہے تو ہم پاکستانیوں کی اکثریت سہل پسند واقع ہوئی ہے۔ طالبعلم کے سر پر استاد کھڑا رہے تو وہ تمام کام بہت خوش اسلوبی سے کرتا ہے یا انجام دیتاہے مگر وہی کام جب اسے اکیلے بغیر کسی کے سر پر کھڑے ہوئے کرنا پڑے تو وہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا یا اچھا نہیں کرتا یا پھر بلکل ہی نہیں کرتا اور کسی نا کسی بہانے کی نظر کر دیتا ہے۔ یہ ہمارا مزاج ہے ہم ذمہ داری نہیں لے رہے اور نا ذمہ داری لینا اگلی نسل کو سیکھا رہے ہیں۔
مسائل کو طول دے طول دے دے کر اداروں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان اسٹیل مل، پاکستان ریلوے، پاکستان بین القوامی ہوائی سروس اور بہت سارے ان سے چھوٹے ادارے جو ابتداء میں ملک کے بہترین اداروں میں شمار ہوتے تھے اب اپنی بقاء کیلئے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ ان اداروں میں سیاسی یونین ہوا کرتی تھیں جو سوائے سیاست کرنے کے اور دوسرے کام کرنے والوں کو تنگ کرنے کے اور کچھ نہیں کرتیں تھیں۔
Pakistan Issues
آج بھی یہی سب کچھ ہو رہا ہے مگر ہم سمجھ ہی نہیں رہے۔ ہر چھوٹے چھوٹے مسلئے کو اتنا طول دیا جاتا ہے کہ وہ تباہی کا سبب بننے لگتا ہے۔ کیا مسائل لوگوں کی اہمیت بڑھانے کیلئے پیدا کئے جاتے ہیں یا پھر مشہور ہونے کیلئے یا واقعی ہم لوگ کام کرنے کے عادی نہیں رہے۔ یا ہمارے اوپر ایسے لوگ مسلط کردئے جاتے ہیں جو اداروں کے ساتھ ساتھ اس میں کام کرنے والوں کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایٹم بم جیسی نایاب چیز بنا دی ہے۔
یکم نومبر کو جو فیصلہ پاکستان کی اعلی ترین عدالت (سپریم کورٹ) نے کیا اگر یہی فیصلہ اس سارے فساد سے پیشتر ہوجاتا تو یقیناً نوبت یہاں تک نا آتی۔ ملک پہلے ہی اندرونی اور بیرونی انتشارکو جھیل رہا ہے اور ہم چھوٹے چھوٹے مسائل میں گھرتے چلے جائینگے تو دشمن تو چوکنا ہوا بیٹھا ہے۔ وہ ہماری صفوں میں ہمارے روپ میں بہروپیا بن کے بیٹھا ہے، ہم اس کو موقع دیتے ہیں یا وہ ہمیں الجھاتا ہے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں، اور پاکستان ہم سے بروقت فیصلوں کا تکازہ کر رہا ہے۔ خصوصی طور پر عدلیہ اپنے آپ کو ان تمام وابسطگیوں سے آذاد کرالے اور ہر مسلئے کو بروقت حل کردے تاکہ ہمارا دشمن منہ تکتا رہے جائے۔