عمرہ کی ادائیگی کے بعد بروز جمعہ بتاریخ ٥ ستمبر ہمارے گروپ کو زیارت کے لیے مدینہ منورہ بسوں پر روانہ کر دیا گیا۔معلم نے گروپ کے پاسپورٹ بھی بس ڈرایئور کے حوالے کر دیے جو ہمارے ساتھ ساتھ مدینہ منورہ پہنچ گئے ۔معلم کے نمایندے نے پاسپورٹ سے ہرعازمین کا نام پکار کے گنتی پوری کی تب بس چلی۔یہی طریقہ جدہ بس پر سوار ہوتے ہوئے بھی اختیا رکیا گیا تھا۔ساری بسیں ماشاء اللہ آرام دہ ہیں۔تقریباً آٹھ گھنٹے بس کے سفر کے بعد مدینہ منورہ پہنچ گئے۔معلم نے راستے میں ناشتے کے پیکٹ بمعہ ٹھنڈا پانی اورجوئس دیے ۔بس نے ہمیں مدینہ منورہ میں شاہراہ علی ابن ابی طالب پر واقع ہوٹل دار طابة پہنچا دیا۔ہوٹل کے کمرے میں ہمارے سمیت چھ عازمین کو ٹھیرایا گیا۔
جمعہ کا دن اور نماز فجر کا وقت تھا۔سامان ہوٹل میں رکھ کر نماز فجر کے لیے مسجد نبوی پہنچ گئے۔ راستے میں سڑک کراس کرنے کے لیے عازمین حج کی سہولت کے لیے انڈر پاس میں برقی سیڑیاں اور لفٹیں لگی ہوئی ہیں۔ ہمیں مسجد نبوی کی محراب والی سمت ہوٹل میں ٹھرایا گیا تھا۔ اس سمت میں مسجد نبوی کا باب مکہ پڑتا ہے۔ گیٹ کی دیوار پر ایک گھڑی لٹکی ہوئی ہے اور ساتھ ہی آذان کے اوقات بھی لکھے ہوئے ہیں۔ ہم نے پانچ نمازوں کے آذان کے اوقات محفوظ کر لیے تاکہ وقت پر مسجد میں پہنچا جا سکے۔ادائیگی نماز کے بعد ہوٹل آئے ناشتہ کیا اور جمعہ کی نماز تک آرام کیا۔ دوپہر کے کھانے سے فار غ ہو کرنمازِ جمعہ کی تیاری کے بعد مسجد نبوی پہنچ گئے۔اس طرح پہلے دن مدینہ منورہ کے قیام کے دوران پانچ نمازیں مسجد نبوی میں ادا کیں۔یہ ہماری زندگی کے خوش گوار اور خوش قسمتی کے دن تھے اور اللہ کا شکر ہے کہ ٨ دن قیام کے دوران ایک جمعہ فجر کی نماز کے ایک ہفتہ بعد دوسرے جمعہ کے دن عشاء تک ٤٠ نمازیں باجماعت مسجد نبوی میں ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔اللہ سے دعاء ہے
وہ قبول فرمائے۔ہمارے روم میٹ عازمین حج نے باب مکہ کے اندرداخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ پر اپنے لیے نماز کی جگہ مخصوص کر لی تھی۔ ہم سب لوگ اس جگہ نماز کے اوقات میں جمع ہو جاتے اور نماز ادا کرتے۔ ہمارے دوسرے روم میٹ تو نماز کے بعد واپس ہوٹل چلے جاتے تھے مگر ہم نے ظہر کے بعد مسجد میں ہی بیٹھنے کا پروگرام ترتیب دے دیا تھا اور نماز عشاء پڑھ کر ہی ہوٹل میں واپس آتے تھے۔سعودی حکومت کی طرف سے مسجد نبوی میں نمازیوں کے لیے بہتریں انتظامات کیے ہوئے ہیں۔ مسجد مکمل ائیر کنڈیشنڈ ہے۔ ہر نماز کے بعد مسجد کی چھت میں بنے ہوئے بڑے بڑے گنبد چھت پر اٹو میٹک طریقے سے سرک جاتے ہیں اور آسمان نظر آنے لگتا ہے ۔تھوڑی دیر بعد پھر سرک کراپنی جگہ واپس آ جاتے ہیں۔شاید یہ طریقہ مسجد میں تازہ ہوا کے داخل ہونے کے لیے کیا گیا ہے۔
جگہ جگہ آب زم زم کے ٹھنڈے کولر رکھے ہوئے ہیں۔ ہر پلر کے پاس صف کے کونے میں ریکس میں جوتے رکھنے کا بہترین نظام ہے۔ مسجد میںبہترین ساونڈ سسٹم ہے۔ امام کی قرت صاف صاف سنائی دیتی ہے۔مسجد میں بہترین قالین کی صفیں بچھائیں گئیں ہیں۔ ان قالینوںپر سعودی قومی نشان دو تلواراور درمیان میں کھجور کا درخت نٹ کیا گیا ہے۔لگتا ہے یہ صفیں مسجد کے لیے خاص طور پر بنائی گئیں ہیں۔ مسجد کے پلروں پر گولائی میں تلاوت کے لیے ہر سائز کے قران پاک وافر مقدار میں موجود ہیں۔ عازمین حج بھی ہدیہ کرواکر مسجد میںتلاوت کے لیے قران پاک رکھتے ہیں۔ زاہریں نماز سے پہلے اوربعد قرآن کی تلاوت میں مشغول ہوتے ہیں۔
مسجد میں عربی اور اردو میںدرس وتدریس کا سلسلہ جاری رہتاہے۔مکہ گیٹ کے اندر دیوار پر مسائل معلوم کرنے کے لیے فون کی سہولت موجود ہے۔لوگ اکثر مسائل معلوم کرتے ہوئے دیکھے گئے۔یہاں ہی سے اوپر کے فلور پر مفت کتابچے بٹ رہے تھے جن میں سی ڈی اور آخری پارے کی تفسیر بھی شامل تھی۔ معزورین کے لیے کرسی پر بیٹھ کے نماز پڑھنے کے لیے وافر مقدار میں کرسیاں ریکوں میں موجود ہیں۔ بعض جگہ دیواروں پر ویل چیئرز کے فوٹو بنے، اس بات کی نشان دہی کرتے ہیںکہ ویل چیئرز اس جگہ رکھی جائیں یا ویل چیئر والے حضرات نماز یہاں ادا کریں۔ویسے کسی بھی صف میں لوگ ویل چیئر پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔
ہر روزعصر کی نماز کے بعد مقامی عرب اپنی مہمان نوازی کی رسم کو برقرار رکھتے ہوئے صفوں کے درمیان پلاسٹک بچھا دیتے ہیں۔ کھجوریں ،چائے ،عربی کہوہ ، نان اور ٹھنڈے آب زم زم سے نمازیوں کی تواضع کرتے ہیں۔مسجد میں داخل ہونے کے لیے چاروں طرف دروازے موجود ہیں۔مسجد کے چاروں اطراف وسیع کھلی جگہ ہے جس میں سایہ کے لیے خودکار برقی چھتریاں نصب ہیں۔ سعودی حکومت نے مسجد کافی کشادہ کی ہے اور مزید کشادگی کے پروگرام بھی ہیں۔ مسجد کے چاروں طرف زاہرین کی
رہائش کے لیے فلک بوس عمارتیں موجود ہیں۔ چاروں طرف سڑکیں بھی کشادہ ہیں۔ چاروں طرف سے عازمین حج کے مسجد میں داخل ہوتے وقت روح پرور منظر ہوتا ہے۔ زاہرین کو چھائوں مہیا کرنے کے لیے مسجد نبوی کے صحن میں بڑے بڑے پلروں پر چاروں طرف خود کار الیکٹرونک چھتریاں لگی ہوئی ہیں جوظہر کی نماز سے پہلے آ ٹو میٹک طریقے سے کھلتیں ہیں اور مغرب سے تھوڑا پہلے آٹومیٹک طریقے سے بند ہو جاتیں ہیں۔ جب یہ چھتریاںکھلی ہوتیں ہیں تو پھولوں جیسی لگتیں ہیں اور جب بند ہوتیں تو کلیوں جیسی لگتیں ہیں۔مسجد میں ایک میزانائیں فلور موجود ہے برقی سیڑیوں سے نمازی میزانائیں فلور جا کرپر بھی نماز پڑتے ہیں۔ ریاض الجناح پر حاضری کے لیے لوگ باب لنساء سے داخل ہوتے ہیں ۔ریاض الجناح پر دو رکعت نوافل ادا کرنے کے بعد روضہ رسولۖ پر حاضری دیتے ہوئے باب مکہ کی سمت باب بقیع سے باہر نکلتے ہیں۔ روضہ رسولۖ اللہ کی زیارت کے لیے داخل ہونے کا ایک راستہ دائیں جانب باب السلام سے بھی ہے۔
باب ا لنساء کے علاوہ ہم بھی اس راستے سے زیارت کے لیے داخل ہوئے اور زیارت کی۔ لوگ ریاض الجناح میں باب ابوبکر سے بھی داخل ہوتے ہیں۔ روضہ رسولۖکے سامنے کھڑے ہو کر بسم اللہ وصلاة وسلام الارسول اللہ پڑھتے ہیں۔ رسولۖاللہ کے روضے پر ہاتھ اٹھا کر دعا پڑھنے سے وہاں پر موجود شرتے روک دیتے ہیں کیونکہ یہ شرک ہے دعا صرف اللہ سے مانگی جاتی ہے۔ اندر حضرت عائشہ کا ہجرہ ہے۔ رسولۖاللہ جس جگہ بیٹھ کر وفود سے ملاقات کرتے تھے کی جگہ ہے۔اصحاب صفہ کا چبوترہ،رسولۖ اللہ کا پرانا ممبر، ایک نیا ممبر،دونوں کے درمیان ریاض الجناح جس میں زاہرین دو رکعت نماز نفل ادا کرتے ہیں۔ اسی جگہ ایک سفید سنگ مر مر کا ایک چبوترہ بنا ہوا ہے جس پر چڑھ کر موذن پانچ وقت کی آذان دیتا ہے۔
Masjid
ہم نے عصر،مغرب اور عشاء کی آذانیں اس جبوترے سے سنیںاور وہیں تینوں نمازیں بھی ادا کیں۔ ریاض الجناح میں لوگ دو رکعت نفل ادا کرنے کے بعد باہر نکل کر روضہ رسولۖاللہ کی زیارت کرتے ہیں اس کے ساتھ حضرت ابوبکر خلیفہ اول اور حضرت عمر خلیفہ دوم کی قبروں کی زیارت کی جاتی ہے۔ یہاں حضرت ابوبکر کے روضے پر اسلام علیک امیر المومنین ابو بکر صدیق، اس کے بعد حضرت عمر کے روضے پر اسلام علیک امیرالمومنین عمر فاروق پڑھتے ہیں۔پھر مسجد سے باہر اور ملعقہ ساتھ ہی قبرستان بقیع ہے جس میں حضرت عثمان اور دوسرے صحابہ کی قبریںہیں۔ایک بروزجمعرات عشاء کی نماز کے بعد لوگ باہر نکلنے لگے تو معلوم ہوا کہ بھیڑ چونٹی کی چال چل رہی ہے لوگوں کوباہر نکلنے میں تکلیف ہو رہی ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ راستے میں قبرستان بقیع کے نیچے میدان میں اہل تشیع دعاء کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لیے چاروں طرف شرتے لگے ہوئے تھے۔
مزید دیکھا گیا کہ ہر روز بوری حضرات نماز عشاء کے بعد مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہیںممکن ہے وہ بھی دعاء کے لیے آتے ہوں۔زاہرین قبرستان بقیع میںجوق در جوق زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ہم روزانہ مسجد کی مہراب والی سمت سے نماز کے پڑھ کے باہرنکلتے ہیں اور نماز کے لیے بھی اسی راستے سے داخل ہوتے ہیں۔ اس راستے میں کنکریٹ کے چند کھوکے بنے ہوئے ہیں۔ ان میں قرات کے کیسٹ ،کھجوریں،کتابیں، جاہ نمازیں،تسبیاں ،ٹوپیاںاور دوسری اشیاء فروخت کے لیے موجود ہیں۔ نماز کے بعد اس راستے میں ایک چھوٹا سا بازار لگتا ہے۔ کچھ پردے دارخواتین زمین پر اشیاء رکھ کر بھی فروخت کر تی ہیں۔
بقیع قبرستان کی دیوار کے سامنے کھلی جگہ پر مسجد کے صحن کے برابرہر نماز کے بعد ایک چھوٹا سا بازار لگ جاتا ہے جس میں لوگ مختلف اشیاء خریدتے ہیں۔بقیع قبرستان کی بونڈری وال میں مسجد والے حصے اور مسجد سے باہر روڈ کے سامنے دوکانیں موجود ہیں جن میں فروخت کے لیے مختلف اشیاء موجود ہیں نماز کے وقت یہ دکانیں بند ہوجاتی ہیں۔ نماز فجر کے بعدمسجد سے نکلتے ہی بسوں والے صدائیں بلند کرتے ہیں کہ چلو چلو مسجد قبا ،مسجد قبلتین ،اُحد کا پہاڑ، اُحد میںمیدان جنگ کی جگہ، اُحد میںصحابہ کے قبرستان کی زیارت کے لیے چلو۔
دس ریال میں ان ساری جگہوں کی زیارت کرواتے ہیں۔ مسجد قبا میں دو رکعت نماز کی فضیلت رسولۖ اللہ نے بیان کی گئی ہے۔ ہم نے بھی مسجد قبا میں دو رکعت نماز ادا کی۔ اللہ قبول فرمائے ۔ہمارے گروپ نے زیارت کے لیے ہوٹل میں ہی بس کا بندوبست کیا تھا دس ریال فی سواری لیکر ہمیں بھی ان جگہوں کی زیارت کرائی گئی۔
قارئین! آج کل کے دور کی سفری سہولیات اور رسولۖاللہ کے دور کے سفر کا موازنہ کیا جائے توعقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ اونٹ اور پیدل سواری میں مہینوں لگ جاتے ہوں گے اور دھوپ کی تپش اور پانی قلت کا مقابلہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہو گا۔ اللہ کے بندے اللہ کے گھر کی طرف تلبیہ پڑتھے رواں دواں ہوتے ہوں گے۔(باقی آیندہ)