تحریر : مبشر حسن شاہ اس تحریر کا عنوان سجاد علی کے ایک پرانے البم کے گیت چیف صاحب کا ایک بول ہے۔ قارئین حیران نہ ہوں۔ اس طرح کے غیر سنجیدہ عنوان کی اشد ضرورت تھی کیونکہ پاکستان کی معزز ترین عدالت کے ریمارکس بھی غیر سنجیدگی کی حدوں کو چھو رہے ہیں ۔پانا مہ کیس کی سماعت کے دوران ججز کی طبیعت میں چونچالی واضح محسوس ہو رہی ہے اور، آئے روز ہونے والی سماعت کے ایسے ایسے ریمارکس سامنے آرہے ہیں گویا کیس کی سماعت تو محض ایک بہانہ ہے۔ مقصود طبیعت کی سستی، کلفت اور اداسی کو دور کرنا ہے۔ سپریم کورٹ کے میں قضا کے منصب پر فائز اعلیٰ حکام نے پانامہ پیپرز کی سماعت کے دوران جہاں ن لیگ کے وکلاء، پی ٹی آئی کے وکلا ،شیخ رشید ،اور دیگر درخواست گزاروں کو باتوں باتوں میں جگتیں مارنے کا سلسہ شروع کر رکھا ہے وہیں انہوں نے میڈیا پر براہ راست اٹیک کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اخبار ایک دن کی خبر ہوتا ہے دوسرے دن اس میں پکوڑے رکھ کر فروخت کیے جاتے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اخباری تراشے الف لیلی کی داستانوں جیسے ہیں ۔اس بات کے بعد کافی دن میں اس خوش فہمی میں مبتلا رہا کہ پریس کونسل آف پاکستان ،صحافتی تنظیمیں ،اینکر پرسن ،اخبار مالکان ، کالم نویس اور دیگر صحافتی برادری کی جانب سے احتجاج سامنے آئے گا لیکن توہین عدالت کے خوف سے سب کو سانپ سونگ گیا ہے ۔ایک دو اخبارو ں کے چند کالم نگاروں نے پکوڑوں کو عنوان بنا کر کالم لکھا لیکن وہ بھی جہاں عدلیہ کو مخاطب کرنے کی نوبت آئی کنی کترا کی گزر گئے ۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے ججز نے صحافتی وقار مجروح کیا ہے ۔ان ریمارکس کے بعد سمجھ نہیں آتی خود کو پکوڑے فروش لکھیں ،ردی والا یا پھر سند باد جہازی۔ ؟ میں تو کالم کا لوگو حاصل زیست سے تبدیل کرکے بلبل ہزار داستان رکھنے کا سوچ رہا ہو ں ۔ کسی بھی سطح سے پریس کی قابلیت اور اہلیت پر براہ راست انگلی اٹھائے جانے کی مذمت نہیں کی گئی جو اپنی جگہ لمحہ فکریہ ہے ۔کیا صحافتی برادری کی خاموشی اس بات کی غماز ہے کہ وہ واقعی اخبارات کی کوئی اہمیت نہیں اور خبریں ،تحقیقاتی رپورٹس اور کالم وغیرہ چھوٹ کا پلندہ ،من گھڑت ،فضول اور پیسے کمانے کے اوچھے ہتھکنڈے ہیں یا توہین عدالت کی سزا نے قلم کی سیاہی خشک کر رکھی ہے ؟ سزا کے خوف سے زبانیں کنگ ہیں۔
صحافت سوالیہ نظروں سے صحافیوں کو دیکھ رہی ہے کہ ” بولتے کیوں نہیں مرے حق میں ؟ آبلے پڑ گئے ہیں زباں میں کیا ؟ ” (جون ایلیا ) چیف صاحب آپ نے فرمایا ہے کہ اخبار ایک دن کی خبر ہوتا ہے اور دوسرے دن پکوڑے فروخت کیے جاتے ہیں ۔جناب اگر سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کی کاپی میں دال سویاں بک رہی ہوں تو کیا عدالت کی کریڈیبلیٹی بھی مشکوک مان لیں گے ؟ یا جو عدالتی کمشن بنتے آئے ہیں ان کے اوراق کو ہم صحافی الف لیلی کی داستانیں کہہ دیں ۔لکھ دیں تو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیں گے ؟ ساری باتیں چھوڑیں یہ پانامہ پیپرز کا قضیہ شروع ہی پریس نے کیا ہے ۔اسی بات کو بنیاد بنا کر آپ نے کیس سننے سے انکار کیوں نہیں کیا ؟ جس دن پانامہ پیپرز کی پہلی خبر اخباروں میں لگی تھی اس کے ٹھیک دوسرے دن ان اخباروں میں بھی پکوڑے ،سموسے ،جلیبیاں ،نمک پارے ،پتیسے ،مونگ پھلی ،چنے ، چھلیاں اور دیگر اشیائے خورونوش بکی ہوں گی ۔تو آپ کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہو گیا ناں ؟ کیس ڈس مس ۔۔۔۔۔۔ ملزمان کو باعزت بری کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ پھر کورٹ رپورٹنگ پر بھی پابندی لگا دیں۔
Supreme Court
آپ نے جسٹس ہانی کی نہال ہاشمی کی ملاقات کا نوٹس لیا ہے وہ بھی تو ہم ردی فروشوں کی یہ گھڑی ہوئی الف لیلوی داستان تھی اس پر عدالت اتنی سنجیدہ کیوں ہو گئی ؟ جب بھی کہیں معاشرتی ،معاشی یا مذہبی بنیادوں پر کوئی ایسا سنگین مسئلہ کھڑا ہوتا ہے جس سے انسانی جانوں کے زیاع یا مالی نقصان کا اندیشہ ہو تا ہے تو عدالت از خود نوٹس لیتی ہے ۔اس از خود نوٹس کے پیچھے بھی ہم صحافیوں کی ہی خبر کا ر فرما ہوتی ہے ۔نہ کہ علی با با اور چالیس چور ہوتے ہیں ۔خبر کیسے بنتی ہے ؟ ایک خبر کے پیچھے کتنے چہرے ،دماغ ،سرمایہ ،وقت ،انسانی صلاحیتیں ،اور ٹیکنالوجی کار فرما ہوتی ہے اس کا احساس ہے آپ کو ؟ دو چار ہفتے پرانی بات ہے معزز عدلیہ نے ایک ملزم کو 13سال بعد باعزت بری کیا جبکہ ملزم 11سال پہلے ہی بے عزت مر چکا تھا۔ اسی کے کچھ دن بعد عدالت نے دو افراد کی پھانسی کے احکامات منسوخ کرکے ان کی رہائی کا حکم دیا۔
حکم ِ حاکم جب تک محکوم کو پہنچتا ۔تختہ دار کے چوبی پٹ کھلے ہوئے عرصہ ہو چکا تھا ۔اب ان دو فیصلوں کی کاپیوں میں تو مٹھائی رکھ کر بانٹنی چاہیئے ؟؟؟؟؟ بطور صحافی ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ پانامہ پیپرز پر کون جیتتا ہے کون ہارتا ہے ۔اگر عدالت کو اخباری تراشے ،خبریں بطور ثبوت با قابل قبول تھیں تو ان کو مسترد کرنے کے لیے عدالت کسی کو جواب دہ نہ تھی ۔اخلاقی طور پر بھی عدالت کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اخبارات کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگائے ۔ان کو الف لیلی کی داستان کہے یا اس طرح کے دیگر ریمارکس دے جو دیے گئے ہیں ۔ افسوس کہ نہ وہ صحافی رہے اور نہ وہ جرات کہ شورش کاشمیری نے ایک کالم بعنوان ” الحمد اللہ ” اپنی اخبار میں شائع کیا تھا جس پر حکومت نے پریس کی ضبطی کے آرڈر جاری کر دیے اور شورش کاشمیری کی بندش کے ۔جب حکومتی اہلکار یہ حکم نامہ لے کر آئے تو شورش نے سرکاری حکم نامہ موصول کرنے کے دستخط کیے اور ساتھ میں لکھا ” الحمد اللہ ” ۔آج پریس تو آزاد ہے لیکن پریس والے مصلحتوں اور قانون کی شقوں کے اسیر ہیں ۔عدالت کے پاس اختیار ات ہیں جو میں نہیں چھین سکتا ۔لیکن عدالت اگر میری فیلڈ بر بے جا تنقید کرے گی تو میرے پاس قلم اور الفاظ ہیں جو عدالت کے پابند نہیں ۔ صحافت کے وجود پر حرف آیا ہے۔
تمام صحافیوں کا فرض ہے کہ اپنی آواز بلند کریں احتجاج عدالت تک پہنچنا چاہیئے اور اگر وہاں سے توہین عدالت کی صدا آتی ہے تو قید و بند کی صعوبتیں آج تک حق کی آواز کو نہیں دبا سکیں ۔سپریم کورٹ آئندہ سماعت میں اپنے الفاظ واپس لے کر آن دا ریکارڈ تمام صحافیوں سے معذرت کرے ۔اگر یہ نہیں کرنا تو پھر ازخود نوٹس لے کر اس کالم پر بھی سماعت شروع کر دیں ۔کم سے کم افسوس تو نہیں ہو گا کہ کسی نے ہمارے پیشے پر بے جا تنقید بلکہ تنقیص کی تھی اور سزا کے خوف سے ہم چپ رہے تھے کیونکہ ” ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے۔ ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا۔