تحریر: شیخ خالد ذاہد ہمارے ملک کی ستر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہم تنقید ذدہ لوگ ہیں۔ ہم پاکستانی معاشرے کے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں ہمیں تنقید کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے ۔ دراصل ہماری پرورش تنقید ذدہ ماحول میں ہوئی ہے۔ ستر سال تو پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے ہو چکے، شائد تنقید ہمارے خطے کی وراثت ہے۔ تنقیدی مزاج ہمیں ہماری محرومیوں کی بدولت میسر آیا ہے، زمانہ ہمیں محروم کرتا گیا اور ہم فقط تنقید کرتے رہ گئے۔ تنقیدی ذہن تخلیقی صلاحیتوں پر قدغن لگانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور خود ایسی صلاحیتوں سے کسی حد تک خالی سمجھا جاتا ہے، کیوں کے وہ ہر ہونے والے کام کے منفی پہلو پر بحث کرنے کے موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ آج میڈیا کی ترقی بھی انہی تنقیدی عناصر کی بدولت پھل پھول رہی ہے۔ تقنید ذدہ معاشرے کا ترقی کرنا ناممکنات میں شمار کیا جاسکتا ہے اور وقت کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں کو ترقی کہنا درست نہیں، یہ تو آپ کی مجبوری ہے کہ آپ نے ایسا کرنا ہی ہے ورنہ معاشرہ یا زمانہ آپ کو روندتا ہوا آگے نکل جائےگا۔ ایسے کسی بھی عمل کو ہم ترقی کہتے ہیں جو کہ ترقی نہیں بلکہ بھیڑچال کہلاتی ہے۔
یہ تنقید ہمارے معاشرے میں کسی خاص مقام تک محدود نہیں ہے۔ یہ ہمارے گھروں سے شروع ہوتی ہے، ہمارے کام کرنے کی جگہ بہت بھرپور انداز میں رہتی ہے، کھیل کے میدانوں تک پہنچ جاتی ہے۔ سیاست اور حکومت تو اس کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ہم اپنی عزتِ نفس کی بقاء کیلئے کسی سے بھی لڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں جبکہ ہمارے نزدیک کسی دوسرے کی عزت نفس کی کوئی اہمیت نہں۔ ہر آنے والا جانے والے پر اور ہر جانے والا آنے والے پر بس تنقید ہی تنقید کئے جا رہے ہیں۔
Criticism
ہمارے ملک کو بڑے پائے کے بے قاعدہ نقاد دستیاب ہیں، جن کا کام ہر ہونے والے عمل پر تنقید کرنا۔ موقع ملنے کی دیر ہے ورنہ سڑک پر چلتے ہوئے کسی بھی فرد کو روک کر اس سے کوئی بھی سوال کرلیں اس کی گفتگو کا تقریباً پچھتر فیصد تنقید پر مبنی ہوگا۔ اپنی محرومیوں کا ذمہ دار ہم نے معاشرے کو ٹہرادیا ہے اور ہم یہ بھول گئے ہیں کے ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اگر کوئی ہماری محرومی کا سبب بن رہا ہے تو ہم بھی کسی کی محرومی کا سبب ہیں۔
ٹیلی میڈیا کی ترقی کا سب سے زیادہ فائدہ نیوز چینلز کو ہوا۔ ہمارے ملک میں لگ بھگ 30 نیوز چینل بیک وقت ایک ہی خبر چلاتے ہیں اور پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ انگنت لوگ “بریکنگ نیوز” سن سن کر دل کے عارضے میں مبتلا ہوگئے۔ ان چینلز کے توسط سے جہاں لوگوں میں ذہنی نشونما بھی ہوئی تو دوسری طرف دماغی بدہضمی بھی ہونا شروع ہوگئی۔ یعنی جو بات کسی کی ذہنیت کیلئے نہیں تھی اسکو وہ بھی سننی اور سمجھنی پڑھ رہی ہے اور سمجھا بھی اتنا ہی جاسکتا ہے جتنا کہ علم ہوگا۔ جب تک پرنٹ میڈیا کا دور تھا یعنی اخبارات و رسائل، ان کو وہی پڑھ سکتا تھا جو پڑھا لکھا یا پڑھا پڑھا ہوتا تھا۔ جو کوئی پڑھ نہیں سکتا تھا وہ کسی پڑھے لکھے اور سمجھدار آدمی کو پکڑ کر اخبار و رسائل سے خبریں سنتا تھا۔ مگر تنقید کرنے والے اس وقت بھی آج کی طرح ہی تھے۔ اخبار پڑھ کر سنانے والے کو شائد خبر کی اتنی سمجھ نا آتی ہو جتنی کے سننے والے صاحب کو آتی تھی اور پھر وہ صاحب اس خبر پر سارا دن تبصرہ کرتے رہتے تھے اور اپنی ذہانت کا ڈنکا بجاتے رہتے تھے۔
Newborn Baby
بڑے بوڑھے کہتے تھے کے نو مولود بچے کو زیادہ دیر گود میں نہیں لینا چاہئے کیونکہ بچہ جتنے ہاتھ پاؤں خود چلائےگا اتنی ہی اچھی نشونما پائےگا۔ ہم نے ایک بچے کی طرح معاشرے کو گود میں لینے کی ناکام کوشش میں معاشرتی اقدار کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
ہم بنیادی طور پر تنقید پر بات کر رہے ہیں، تنقید ذدہ معاشرہ بہت مشکل سے پھلتا پھولتا ہے، معاشرہ بنیادی طور پر معاشرتی اقدار کی پر کھڑا ہوتا ہے اور ہر فرد کو گھر، اسکول اور مذہب معاشرتی اقدار کی پیروی کا درس دیتا ہے بلکہ تنبہ کرتا ہے۔ جب ایک ضابطہ اخلاق موجود ہے اور ہر فرد اس ضابطہ اخلاق سے باخوبی واقف ہے تو پھر اسقدر بے جا تنقید کیوں؟؟؟ ہم نے خوف کے مارے متعین شدہ حدوں کو بڑھانے کی بجائے اور کم کر لیا ہے۔ جب کے ضرورت اس امر کی تھی کے دنیا سے مقابلہ ہے ان حدوں کو ایک معاشرتی ضابطہ اخلاق بنا کر بڑھایا جاتا تاکہ نئی نسل کو وہ سب کچھ جو وہ چھپ چھپ کر رہے ہیں کرنا ہی نہیں پڑھتا۔ آج سب کچھ ہو رہا ہے ہمارے بچے ہم سے آگے نکل رہے ہیں انہیں جو بات بتانے کھڑے ہو وہ پہلے سے جانتے ہیں انکا پہلے سے بہت ساری باتوں کا جاننا ہمارے لئے خفت کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ ہم نے اس تنقید کے عمل کو لگام نہیں ڈالی تو معاشرہ کھوکھلا اور معاشرتی اقدار مردہ لاشوں کی طرح ہونگی تو مگر ان پر عمل کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔