تحریر۔۔۔لالہ ثناء اللہ بھٹی 34برس پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے برطانیہ منتقل ہونے والے چوہدری سرور ، برطانیہ میں اپنے قیام کے دوران پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتے رہے۔ چوہدری صاحب کو ہائوس آف کامنز کی تاریخ میں پہلا مسلمان رکن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ چوہدری محمد سرور نے 1997ء سے 2010ء تک برٹش پارلیمنٹ کے ممبر کی حیثیت میں پاکستان ، کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائی اور بہت محنت اور مستعدی سے دنیا کی مسلم اقلیتوں کے مسائل عالمی پلیٹ فارمز پر اٹھائے۔ انہوں نے امریکا کی اسلامی ممالک کے خلاف پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایااور امریکی خارجہ پالیسی کی حمایت کرنے والی برطانوی حکومت پر بھی بڑی جرات سے تنقید کی۔
چوہدری محمد سرور نے اپنے دورِ گورنری میں پنجاب کے مختلف علاقوں میں بالخصوص صحت اور تعلیم کی ترقی اور سماجی بہبود کے بہت سے کام کیے۔ انہوں نے سوات و کشمیر کے زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ سیلاب کے دنوں میں جنوبی پنجاب کے متاثرین کے لیے اپنے بیرونِ ملک مقیم ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہزاروں مکانات تعمیر کروائے اور چھ ماہ سے زائد عرصے تک 10ہزار سے زائد متاثرہ خاندانوں کو خوراک و لباس اور دوسری ضروریاتِ زندگی فراہم کیں۔ ان کی فلاحی تنظیم نے رجانہ میں ایک بہت بڑا اور جدید ہسپتال قائم کیا۔
پیر محل، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور کمالیہ میں دیگر فلاحی کاموں کے علاوہ تکنیکی و فنی تعلیم کے ادارے قائم کیے اور بہت سے تعلیمی اداروں میں سائنس لیبارٹریز اور کمپیوٹر لیب قائم کیں۔ فنی تعلیم کے اساتذہ کی بیرونِ ملک تربیت کے لیے فنڈز کا انتظام کیا۔ چوہدری محمد سرور کے ذاتی دوست کی حیثیت سے امورِ تعلیم کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی اور برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم گورڈن برائون مارچ 2014ء میں اسلام آباد آئے اور یہاں انہوں نے تعلیم کا نامکمل ایجنڈا کے عنوان سے بین الاقوامی تعلیمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے اقوامِ متحدہ کی طرف سے 16کروڑ ڈالر، امریکا کی طرف سے 14کروڑ ڈالر اور یورپی یونین کی طرف سے 10کروڑ ڈالر کی گرانٹ کا اعلان کیا تھا۔
قارئین ! گذشتہ کئی سالوں سے چودھری محمد سرور پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بہت سے پیچیدہ مسائل حل کرانے اور بیرونی دنیا میں پاکستان کو عزت کا مقام دلانے میں اپنا وسیع اثرو رسوخ استعمال کرتے رہے ہیں۔ گورنر پنجاب کی حیثیت سے ان کی تقرری پر تارکینِ وطن بالخصوص برطانیہ میں مقیم تارکینِ وطن اور جنوبی پنجاب کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ ان کے اس عہدے پر موجود ہونے کی وجہ سے پاکستانی تارکینِ وطن کے مسائل حل ہونگے۔ اس اعتماد کی بحالی کے بعد تارکینِ وطن پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے تھے ۔ وہ ایک اصول پسند ، دیانتدار اور اعلیٰ منتظم کی شہرت رکھتے تھے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے ان کے متعلق کہا جارہا تھا کہ ان کا کچھ پتا نہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ ہیں یا اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔ اس بات کے بارے میں بھی سرگوشیاں ہورہی تھیں کہ اگر موجودہ حکومت ختم ہوگئی تو نگران سیٹ اپ میں چوہدری سرور کا کردار بہت اہم ہوسکتا ہے۔
چوہدری محمد سرور گذشتہ 3 ماہ سے حکومت میں رہتے ہوئے بھی حکومت مخالف بیانات دے رہے تھے جسکی وجہ سے مسلم لیگ ن کی قیادت میں بھی ان کے لیے سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ گورنر پنجاب کے پاکستانی سیاست کے حوالے سے تحفظات تھے اور وہ موجودہ سسٹم سے خوش نہیں تھے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے چوہدری سرور نے بیان دیا تھا کہ حکومت کو ماڈل ٹائون میں اس قسم کا ایکشن نہیں لینا چاہیئے تھاجس پر وفاق نے شدید ردِ عمل کیا تھا اور گورنر کو محتاط رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ حال ہی میں امریکی صدر باراک اوباما نے جب بھارت کا دورہ کیا تو وہ پاکستان آئے بغیر ہی واپس لوٹ گئے جس پر چوہدری سرور نے یہ ردِ عمل ظاہر کیا تھا کہ یہ ہماری حکومت کی سفارتی ناکامی ہے جس سے پاکستانی عوام کو دکھ ہوا۔دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 55ہزار پاکستانی شہید ہوچکے ہیں اور ملکی معیشیت کو 100بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے اور تاحال افواجِ پاکستان اور پوری قوم ہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔
Barack Obama
ان تمام حالات کے باوجود امریکی صدر کا صرف بھارت کا دورہ کرنا اور پاکستان نہ آنا، میری سمجھ سے باہر ہے۔ گذشتہ جمعرات کے روز گورنر ہائوس میں بطور اپنی آخری ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری محمد سرور نے کہا تھا کہ میں سب سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے امریکی صدر باراک اوباما کے دورے کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو بات کی ہے وہ حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے بھی مفاد میں ہے کیونکہ جو حکومت کی ناکامیوں کی نشاندہی کرتا ہے وہ اصل میں حکمرانوں کا دوست ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سچ بولنے کا قحط ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر سچ بولنے سے آسمان بھی گر پڑے تو اسکو گرنے دیا جائے۔
اس لیے میں نے بھی ہمیشہ سچ کی بات ہی کی ہے اور جب شریف برادران نے مجھے گورنر کے عہدے کے لیے نامزد کیا تو میں اس کے لیے پاکستان آیا کیونکہ میں پنجاب کے عوام اور دنیا بھر میں رہائش پذیر پاکستانیوں کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتا تھا مگر میں ناکام رہا جس پر میں پنجاب کے عوام اور اووسیز پاکستانیوں سے بھی معافی کا طلبگار ہوں۔ میں چاہتا تھا کہ اپنے تجربے کی بنیاد پر ایسا معاشرہ بنانے کی کوشش کروں جہاں انصاف کا بول بالا ہو اور تعلیم، روزگار اور ترقی سب کے لیے برابر ہو۔ میں انتہائی دکھ سے تسلیم کررہا ہوں کہ پاکستان میں ظلم اور نا انصافی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، غریبوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ قبضہ گروپ اتنا متحرک ہے کہ ان کے سامنے ایک گورنر بھی بے اختیار ہے۔
انصاف کمزور ہوچکا ہے ا، زنا بالجبر اور عورتوں پر تیزاب پھینکنے اور کمسن بچوں اور بچیوں کو اغواء کرنے کے بعد ان سے بد فعلی کے واقعات میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ اسکے مقابلے میں قاتل دندناتے پھر رہے ہیں اور مظلوم انصاف کے لیے دربدر ہیں۔ پاکستان میں سیاسی ورکرز صرف دریاں بچھانے اور نعرے لگانے کے لیے مختص ہیں جبکہ برطانیہ میں سیاسی ورکرز کو ان کا حق دیا جاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ پاکستان میں بھی سیاسی کارکنوں کو ان کا مقام دیا جائے اور یہاں بھی غریب کا بچہ پارلیمنٹ میں جاکر عوام کی نمائندگی کرے۔
چوہدری محمد سرور کا کہنا تھا کہ میں نے گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے لیکن پاکستان کے مزدوروں، کسانوں اور پسے ہوئے عوام کے لیے ہر فورم پر جنگ لڑتا رہوں گا۔ یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان میں 23ملین بچے سکولوں میں نہیں جا رہے ۔ 68سال گزرنے کے بعد بھی نصف پاکستانی عوام آج بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیںجسکی وجہ سے انتہائی خطرناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔میں نے 18ماہ تک اپنی ذمہ داریوں کے دوران ملک و قوم کی بہتری کے لیے جو کچھ ہوسکا، وہ کرنے کی کوشش کی۔ اور میری کوششوں سے ہی پاکستان کو جی ایس ٹی پلس اسٹیٹس کا درجہ ملا۔
میں نے ایچی سن کالج میں میرٹ کی بالادستی کو قائم رکھنے اور وہاں پر محنتی غریب بچوں کے داخلے کے لیے ان کا حق دلا کر فرسودہ داخلہ پالیسی کا بھی خاتمہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کا بھارت اقوامِ متحدہ کی سکیوریٹی کونسل کا رکن بنانے کی کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہونے دیں گے جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کرتا ۔ یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ دنیا بھر کے تقریباََ 1.5بلین مسلمانوں کو اقوامِ متحدہ کی سکیوریٹی کونسل کا ممبر نہیں بنایا جاتا اور نہ ہی اقوامِ متحدہ کے ایوانوں میں مسلمانوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر اقوامِ متحدہ کی سکیوریٹی کونسل بنانی ہے تو اس میں مسلمان ممالک کو بھی رکنیت کا حق دیا جائے۔ گورنر ہائوس میں بطور گورنر اپنی آخری پریس کانفرنس کے بعد چوہدری محمد سرور نے باضابطہ طور پر گورنر ہائوس کو بھی خالی کردیا ۔ گورنر ہائوس کے ملازمین انتہائی افسردگی کے ساتھ انہیں گیٹ تک چھوڑنے آئے۔
قارئین! چوہدری محمد سرور کا استعفیٰ ، حکومتی نظام کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور یہ گویا سسٹم کے منہ پر طمانچے کی مانند ہے۔ ہم اکثر سنتے ہیں کہ سسٹم میں تبدیلی آنی چاہیئے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ پہلے ہم خود اپنے آپ کو تبدیل کریں اور پھر انفرادی و مجموعی طور پر عوامی رویہ تبدیل ہوسکے اور پھر اسکے بعد ہی تبدیل شدہ عوام ہی سسٹم میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ خیر ! اب دیکھنا یہ ہے کہ چوہدری محمد سرور اقتدار کے نمائشی ایوانوں سے خود کو باہر لے جائیں گے یا ۔۔۔۔