اسلام آباد (جیوڈیسک) عالمی ٹربیونل کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ پاکستان کے لیے ایک دھچکا ہے، جس کے لیے بعض حلقے غلط حکومتی فیصلوں اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کوذمہ دار ٹہراتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دینے کی ہدایات کی ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ ریکوڈک کیس میں پاکستان اس نہج پہ کیسے پہنچا، اس کے لیے کون ذمہ دار ہے اور پاکستان اس تجربے سے کیا سیکھ سکتا ہے۔
عالمی بینک کے ایک ٹربیونل نے جمعے کے روز اپنے فیصلے میں پاکستان کی طرف سے ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کے ساتھ کان کنی کا معاہدہ ختم کرنے پر تقریباً چھ ارب ڈالر کا ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق یہ رقم ٹربیونل کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ ہے۔
فیصلے کے مطابق پاکستان کو لگ بھگ چار ارب ڈالر ہرجانے کی مد میں اور دو ارب ڈالر سود کے طور پر ادا کرنے ہوں گے۔
بین الاقوامی سرمایہ کاری میں تنازعات سے متعلق انٹرنیشنل ٹربیونل پہلے ہی یہ فیصلہ دے چکا تھا کہ اس کیس میں پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے یک طرفہ طور پر معاہدہ ختم کر کے ٹیتھیان کاپر کمپنی کو نقصان پہنچایا۔ کمپنی نے اس نقصان کے ازالے کے لیے کوئی 11 ارب ڈالرکا دعویٰ کر رکھا تھا۔
کمپنی کے چیئرمین ولیم ہیز کے ایک بیان کے مطابق وہ اپنے نقصانات کے ازالے کے لیے اب بھی حکومت پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے تیار ہے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان کے مطابق حکومت نے کمپنی کے اس بیان کا خیرمقدم کیا ہے تا کہ باہمی رضامندی سے مسئلے کا حل ڈھونڈا جائے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ حکومت صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے اور حکام سے مشاورت کے بعد ہی آئیندہ کا لائحہ عمل طےکیا جائے گا۔
پاکستان کے لیے یہ فیصلہ ایک بڑا دھچکا ہے کیونکہ حکومت کے پاس پہلے ہی ملک چلانے اور قرضوں کے ادائیگی کے لیے پیسہ نہیں اور پی ٹی آئی حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر 6 ارب ڈالر کا قرضہ لینا پڑا ہے۔
ریکو ڈک ضلع چاغی میں ایران اور افغان سرحدوں کے قریب واقع ایک گاؤں کا نام ہے، جس کا بلوچی زبان میں مطلب ریت کا ٹیلہ ہے۔ ریکو ڈک میں تانبے اور سونے کے ذخائر کا شمار دنیا کے بڑے ذخائر میں ہوتا ہے جہاں سےسالانہ لاکھوں ٹن پیداوار کی جا سکتی ہے۔
ریکوڈک کے قریب سائندک کاپر اینڈ گولڈ پراجیکٹ بھی واقع ہے، جس کی لیز چینی کمپنی ایم آر ڈی ایل کے پاس ہے۔
بلوچستان کے قوم پرست حلقوں کو شکایت رہی ہے کہ معدنی وسائل سے مالا مال اس پسماندہ صوبے کو اس کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا ہے، جس کی ذمہ داری وہ وفاق اور فوج پر ڈالتے ہیں۔
حکومت پاکستان اور ٹیتھیان کاپر کمپنی کے درمیان تنازع سات سال پرانا ہے۔
پاکستانی حکام نے انٹرنیشنل کمپنیوں کے ساتھ کان کنی سے متعلق تنازعیات کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے کی کوششیں کیں۔ لیکن پھر چیف جسٹس افتخار چودہری کی قیادت میں عدالت عظمیٰ کے احکامات پر حکومت کو معاہدہ منسوخ کرنا پڑا۔
مبصرین کے مطابق سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس کیس سمیت کئی معاملات میں اپنے اختیارات سے تجاویز کیا۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ عدلیہ نے کاروباری تنازعات میں ایسے غیر معمولی فیصلے دیے جن سے ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ ان میں ریکوڈک کیس کے علاوہ ترکی کی کمپنی کارکے رینٹل پاور اور پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری جیسے معاملات شامل ہیں۔