سابق وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کے بیٹے اور پنجاب اسمبلی کے حلقہ 200کے امیدوار علی حیدر گیلانی کااغواء ,سیاسی اجتماعات پر دہشتگردانہ حملوں کے نتیجے میں معصوم جانوں کے ضیاع اور انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات کے ساتھ ملک بھر میں پیدا ہونے والے متوقع تلاطم اور اس کے نتیجے میں بگڑجانے والے حالات کی ذمہ داری جہاں انتظام انتخاب اور انصاف کے ساتھ تحفظ کے ذمہ داروں و اداروں کے سر ہے وہیں اس میں کہیں اپنا کردار محسوس کرکے اس خاکسار کا ضمیر اسے بری طرح ملامت کررہا ہے اور ضمیر پر موجود احساس گناہ کا بار تنگی تنفس کا سبب بناہوا ہے کیونکہ اپنے صحافتی زندگی کے پچیس سالہ تجربات کے بعد اپنی مردم شناسی کی صلاحیت کا مان ٹوٹنے کا احساس ہی جان لیوا نہیں ہے بلکہ آنے والے برے حالات اور آئندہ نسلوں کے برباد مستقبل کیلئے کہیں نہ کہیں ذمہ دار ہونے کا احساس بھی ہے۔
جو جینے نہیں دے رہا کیونکہ شفاف انتخابات کے حوالے سے سول سوسائٹی ,تاجر برادری ,صحافتی حلقوں اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر کیلئے فخرالدین جی ابراہیم کا نام تجویز کرنے کی جسارت شاید میرے لئے گناہ بے لذت بننے جارہی ہے جبکہ عدلیہ کی آ زادی کی تحریک میں جن توقعات کے ساتھ کردار ادا کیا تھا وہ توقعات بھی باطل ثابت ہوچکی ہیں گوکہ عدلیہ کی جانبداری پر سوالیہ نشان اٹھاکر قابل سزا گناہ کے جرم کا حوصلہ مجھ میں نہیں ہے مگر یہ کہنے پر مجبور ضرور ہوں کہ عدلیہ کی آزادی کیلئے سول سوسائٹی و قانون دانوں کے ساتھ ہم جیسے صحافیوں نے بھی اپنا کردار عوام کی فلاح و ترقی کیلئے اداکیا تھالیکن عدلیہ کی آزادی کے بعد ترجیحات میں عوامی مفادات سے زیادہ سیاسی معاملات کی اہمیت عوامی مایوسی کا باعث بنی۔
فخرالدین جی ابراہیم کا نام تجویز کرنے کی وجہ عوامی مفادکی آئینی شق 62اور63 پر عملدرآمد کے ذریعے ملک دشمنوں , غداروں ,عوام دشمنوں ,قرضے معاف کرانے ,قومی دولت لوٹنے ,اختیارات سے تجاوز کرنے ,جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے نعروں کے ذریعے عوام کو دھوکا دینے کے تمام مجرموں کو انتخابی عمل سے باہر کرکے ذمہ دار ,دیانتدار ,باصلاحیت ,اہل اور عوام دوست قیادتوں میں سے بہتر قیادت کے انتخاب کیلئے عوام کو پرامن ماحول کی فراہمی اورانتخابات کی شفافیت وغیر جانبداری کو یقینی بناتے ہوئے منصفانہ سلوک کے ذریعے تمام جماعتوں کو عوام سے رابطے کی آزادی دیکر انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات واحتجاج کی روایت کا خاتمہ تھا۔
Elections
مگر قرائن و حالات اور 62و63 کی چھلنی کے باجود وطن عزیز کو چاٹ جانے والی دیمک جیسی تمام سیاسی قیادتوں اور عوام کا لہو نچوڑنے اور ہڈیوں سے گودا تک نکال لینے والے قاتلوں ,دہشت گردوں اور سزایافتہ مجرموں کے بھی انتخابات کیلئے اہل قرار پانے سے انتخابات کی شفافیت تو پہلے ہی مشکوک ہوچکی تھی اور اب چند مخصوص جماعتوں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگانے کی سازشوں پر انتظام,انتخاب ‘انصاف اور تحفظ کے ذمہ داروں و اداروں کی خاموشی نے انتخابات کی شفافیت پر شکوک کے ساتھ ان کے منصفانہ ہونے پر بھی شبہات پیدا کردیئے ہیں جن کا اظہار وہ سیاسی جماعتیں بھی کرنے لگی ہیں جنہیں نہ تو دہشت گردوں کی جانب سے دیوار سے لگایا جارہا ہے اور نہ ہی مقتدر حلقے ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہیں جبکہ جعلی بیلٹ پیپرز کی برآمدگی اور انتخابات سے قبل انتخابی سازوسامان کی غیر قانونی نقل و حمل سے یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ اس بار دھاندلی سیاسی جماعتیں نہیں کریں گی۔
بلکہ مخصوص ومحدود ٹولے کو ایکبار پھر عوام پر مسلط کرنے کا منصوبہ بالائی سطح پر بنایا گیا ہے جس کے سامنے فخرا لدین جی ابراہیم جیسی دیانتدار اور غیر جانبدار شخصیات بھی بے بس ہیں جبکہ بہت سے ”حلقے” انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بھی پر امید نہیں ہیں کیونکہ انتخابی مہم کے ساتھ ہی ملک بھر میں تواتر و تسلسل پکڑنے والی دہشت گردی’ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کے اغوأ تک پہنچ گئی ہے جبکہ مرحوم گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے اغوأہونے والے صاحبزادے سالوں کی گردش پوری ہونے کے باوجود ا ب تک بازیاب نہیں ہوپائے ہیں تو علی حیدر گیلانی کا مستقبل ہوگا یہ وہ سوالیہ نشان ہے جو اس وقت پوری قوم کے مستقبل پر لگا دکھائی دے رہا ہے۔
Political Parties
انتخابات شفاف نہیں ہوئے تو کیا ہوگا ؟ محدود سیاسی جماعتوں کی آزادی اور دیگر سیاسی جماعتوں پر بندش انتخابی نتائج کے تسلیم کی صورتحال پر کس طرح اثر انداز ہوگی ؟ تحفظات والزامات کے ساتھ قائم ہونے والی جمہوریت کتنا عرصہ قائم رہ سکے گی ؟ عوام سے بڑے بڑے وعدے کرنے والے جھوٹ ودھوکا دہی کے ”ماسٹر ” روایتی سیاستدان اپنے اقتدار کو یقینی بنانے کیلئے ” ہارس ٹریڈنگ”کو مزید کتنا فروغ دیں گے ؟ اربوں ,کھربوں روپے کے اخراجات سے انتخابی مہم چلانے والے اقتدار میں آنے کے بعد اپنی ”انویسٹمنٹ ” کی ” ریکوری ” کو مقدم رکھیں گے یا قومی امنگوں کی ترجمانی اور پاکستان کی ترقی و سلامتی کو شعار بنائیں گے ؟ ”ہارس ٹریڈنگ ” کے ذریعے مفادات کے تحت قائم ہونے والی حکومت کیا ملک و قوم کی خدمت کرپائے گی یا دنیا پاکستان میں ایکبار پھر ”جوتیوں میں دال بٹتے ” دیکھے گی۔
کیا پاکستان میں واقعی جمہوریت کے تسلسل کیلئے شفاف انتخابات ہورہے ہیں یا کسی نادیدہ قوت کا کوئی کھیل کھیلا جارہا ہے جس میں عوام کو ”کھلاڑی” کہہ کر ” مہرہ ” بنایا گیا ہے۔بحرکیف کون سا کھیل چل رہاہے اس کھیل میں کون کھلاڑی ہے اور کون ایمپائر بنانا ہوا ہے ,بلہ کس کا ہے اور کون گیند کی طرح گراؤنڈ سے باہر کون جانے والا ہے ! ان تمام باتوں سے قطع نظر اللہ سے دعا ہے کہ انتخابات شفاف ہوں یا متقدر حلقوں کے مفاد کے مطابق ان کے نتائج کسی خاص جماعت کے حق میں آئیں اللہ تعالیٰ ان انتخابات کو پر امن ضرور بنائے اور امن و امان کے حوالے سے وہ تمام خدشات غلط ثابت ہوجائیں جو دل کودہلا رہے ہیں کیونکہ تمام ہی حلقے انتخابات کوخونیں قرار دے چکے ہیں اور حساس ادارے بھی 10اور 11مئی کو امن و امان کے حوالے سے خطرات کا اظہار کررہے ہیں۔اللہ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے۔
Pakistan
مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ دہشت گرد بڑی آسانی سے تمام اہداف حاصل کرتے رہے ہیں اور ان کا دائرہ کار تیزی سے بڑھنے کے ساتھ ان کی کاروائیاں بھی منظم ہوتی جارہی ہیں اسلئے انتخابات کے موقع پر فول پروف سیکوریٹی کو یقینی بنانے کے ساتھ ملک بھر کے عوام کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کیلئے مؤثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت بھی ہے۔دوسری جانب لاہور میں LDA کی بلڈنگ میں آتشزدگی اور آگ پر قابوپانے میں تاخیر کے نتیجے میں انسانی زندگیوں کا اتلاف افسوسناک ہی نہیں بلکہ فکر انگیز بھی ہے کہ کب تک ہمارے کرپٹ ارباب اختیار اپنی کرپشن پر پردہ ڈالنے کیلئے دفاتر جلاتے رہیں گے اور اہم فائلوں کے ساتھ ساتھ ملازمین کو بھی زندہ جلاتے رہیں گے اور کب تک اقتدار و اختیار کی جنگ میںعوام کی لاشوں پر پاؤں رکھ کر مسند وزارت و صدارت تک پہنچنے کی دوڑ جاری رہے گی۔
11مئی کا سورج عوام کیلئے انتخاب و امتحان دونوں ساتھ لیکر طلوع ہوگا کامیابی پاکستان اور ہمارے مستقبل کو ترقی و استحکام کی روشن منزل کی جانب لے جائے گی اور ناکامی ہمارے مقدر میں ظلمتوں کے اندھیروں کی کثافت لکھ دے گی ۔ فیصلہ عوام کوکرنا ہے انقلاب کے ذریعے نئے پاکستان کی بنیاد رکھنی ہے یا اپنے گرد موجود جاگیرداروں ,وڈیروں ,لٹیروں کی جیل کی فصیلوں کو مزید بلند کرکے” آزادی” کی ”ہرسوچ” کو بھی” مقید” کرنا ہے۔ تحریر : عمران چنگیزی