آج بھلے سے کوئی میرے اِس کالم کو لفاظی کہیے یا اِسے کوئی اور نام دے کر مجھے اور اِسے پکارے مگر حقیقت یہی ہے کہ جو میں اگلی سطور میں کہنے جارہاہوں وہ یہ اَب دیکھنایہ ہوگاکہ گیارہ مئی کے مجموعی طورپر پُرامن انعقادہونے والے عام اِنتخابات کیاچہرے بدل کر اقتدار کی مسند پر اپنے قدم رنجافرمانے والے نئے پرانے سیاسی کھلاڑی، مداری اور بہروپئے 19کروڑ پاکستانیوں کی قسمت بدل دیں گے جس کے بدلنے کایہ سب کے سب اپنے انتخابی جلسوں، جلوسوں ، کارنرمیٹنگوں ، ریلیوں اور میڈیا کے بیانات میں تذکرہ کیاکرتے تھے۔
یا سب کچھ جہاں ہے جیساہے کی بنیاد پر چلتارہے گا اور میرے مُلک کے سیاستدانوں کے جذباتی نعروںمیں بہہ جانے والے بدعقل عوام پانچ سالوں کے لئے پھر مسائل کی چکی میں پستے رہیں گے ..؟یہ وہ سوال ہے جوآج مجھ جیسے سیکڑوں محب وطن ہم وطنوکے دماغ کے کسی نہ کسی خانے میں چھپابیٹھاہے اور دل کو اِسی طرح کے بے شمار مخمصوں کی آماجگاہ بنارہاہے اگرچہ گیارہ مئی کے عام انتخابات کے بعد ایک عام اور خام خیال یہ بھی ہوگا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ اِنتخابات اچھے یا بُرے ، صاف و شفاف یا دھاندلی سے لبریزجیسے تیسے ہوہی گئے ہیں۔
اِس کے بعدکچھ عرصے میں یقینا کوئی نہ کوئی حکومت بھی تشکیل پائے گی، اَب یہ اور بات ہے کہ وہ کثیرالجماعتی اتحادیوں پر مشتمل ہویا پہلے کی طرح پھر کسی ٹریکا (کوئی تین نئی جماعتوں )کااتحاد پانچ سال تک وجود میں آئے اور وہ مُلک کو اپنے حساب سے چلائے،اور مُلک کے غریب عوام کو لٹوکی طرح اپنی انگلیوں کی اشاروں پر نچائے اور پھر مفاہمت اور افہام وتفہیم کی پالیسیوں کو اپنے سینوں سے لگاکر اپنی مدت پوری کرجائے۔
بہرحال..!کچھ بھی ہومگرقوم کو اِس بات کاگمان رہناچاہئے کہ اِن انتخابات میں سوائے چہروں کے بدلنے کے اور کچھ نہیں بدلنے والاہے..یہ میں اِس لئے کہہ رہاہوںکہ اِس بار بھی ہم نے اُمیدواروں کی شخصیات ، کرداراور صلاحیت کے بجائے،اِن کی یا اِن کی جماعتوں کی جانب سے لگائے گئے، جذباتی نعروں کی وجہ سے اپنی جذباتیات کو ملحوظ خاطررکھ کراِنہیںکامیاب کرانے کا عزم عظیم کررکھاتھایعنی پہلے کی طرح اِس مرتبہ بھی ہم نے اپنی تقدیرکا فیصلہ سیاسی کھلاڑیوں، مداریوںاور بہروپیئوںکے جذباتی نعروں کی وجہ سے اِنہیںاپناووٹ دے کر ایوانوں کی دہلیز کے دروازے اِن کے لئے کھولنے کا سامان کیا۔
Load Shading
جوکہ میں سمجھتاہوں کہ ہمیں نہیں کرناچاہئے تھا،اَب اگرایساہوہی گیاہے توپھرہمیںپانچ سال تک اُن ہی لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بھوک وافلاس، بیروزگاری، تنگ دستی ، اقرباء پروری ، لوٹ مار، قتل وغارت گری ،اپنی اندرونی و بیرونی دہشت گردی، خودکش بم دھماکوں سمیت ڈرون حملوںاور بہت سے ایسے انگنت مسائل کی دلدل میں ہی غرق رہناہوگاہم جن سے خلاصی کی گیارہ مئی سے قبل اُمیدلگائے بیٹھے تھے۔
اگرچہ اِس میںبھی کوئی شک نہیں کہ میری طرح اوروں کا بھی گیارہ مئی سے قبل یہ خیال رہاہوکہ قوم اِس بار جذباتی نعروںاور کسی کی مظلومیت کے ہاتھوںبلیک میل ہونے کے بجائے، اپنی کھلی آنکھوںاوراپنے وسیع دماغ کا استعمال کرتے ہوئے حقائق کو مدِ نظررکھ کر ضرورکوئی ایسافیصلہ کرلے گی جس سے مُلک کوایسی نئی قیادت ملے گی جو مُلک اور قوم کے ساتھ مخلص ہوگی اوراِس کی اور مُلک کی تقدیر اِن کے حسین خوابوںمیں تبدیل کردے گی مگرافسوس ہے کہ قوم ایسانہیں ہوسکی۔
میں اکثرگیارہ مئی سے پہلے یہ بھی سوچاکرتاتھاکہ آ ج پاکستانی قوم کو اپنے طرح طرح کے تجربات اورمسائل کی بھٹی میں جھونک کر اِسے کُندن بنانے والے سیاستدانوں کو یہ بات اچھی طرح اپنے ذہنوں میں رکھ لینی چاہئے کہ یہ قوم باشعورہوچکی ہے،اور آج یہ اِس قابل ہے کہ یہ اپنے اچھے بُرے اور اپنی تقدیرکا فیصلہ خودکرسکتی ہے،اور قوم یہ بھی جانتی ہے کہ مُلک اور قوم کے حالات صرف چہروں کے بدلنے سے ہرگزنہیں سُدھر سکتے ہیں۔
آج اگرہمیںواقعی مُلک اور قوم کی ناؤکوکسی مثبت سمت پر لے جاناہے تو اِس کے لئے بہت ضروری ہے کہ چہروں کے ساتھ ساتھ نظام کو بھی تبدیل کردیاجائے، کیوںکہ قوم نے 65سالوں میں آمریت اور جمہوریت کا بہت تجربہ کرلیا،اور اِس نے یہ بھی دیکھ لیاکہ اِن سے مُلک اور قوم کو کیا مِلااور آئندہ بھی اِن کے حصے میں کیا آئے گا…؟ اِس عرصے میں حالات کے نشیب وفرازسے گزرنے کے بعدبدلو پاکستان کا نعرہ لئے قوم اِس پر متفق دکھائی دیتی ہے جس کے لئے شاعر نے کہاہے کہ مغرب کے لوگ دیتے ہیں جمہوریت پہ جان اُن کی نظر میں ووٹ ہے طاقت عوام کی اسلام میں ہے حاکمِ اعلیٰ خدا کی ذات بنیاد ہے اِسی پہ وفا کے نظام کی۔
Political Party
یہاں مجھے اِنتہائی مایوسی کے ساتھ پھر یہ کہنا پڑرہاہے کہ مگرافسوس ہے کہ قوم ایسانہیں کرسکی ہے ، آج اِس نے ایک بار پھر جمہوریت کی چاپلوسی کی ڈوری کو چوم کر اپنی تباہی و بربادی کا گڑھاکھود لیاہے، اوراَب اِس بات کی منتظر ہے کہ سیاستدان کب اِس میں اِسے دھکا دیں گے ،مگراِس کے باوجود بھی یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ میری قوم خوش ہے اور قوم کی اِس ناسمجھی پر بھی کوئی اُمیدوار ناکام ہوگیاتو پھر مجھے اِس بات کا یقین ہے کہ بقول شاعر۔ میں نجومی تو نہیں پر پیش گوئی ہے مری سامنے دِیوار پر لکھ دیں بہ الفاظِ جَلی جیتنے والا کہے گا یہ الیکشن تھے فیئر ہارنے والا یہ گرجے گا ہوئی ہے دھاندلی اور اگر کسی حلقے کے اُمیدوار کو ووٹر اِسے نظر اندازکرگئے اور اِتفاق سے جناب سابقہ وزیربھی رہے ہوں تو پھر بقول شاعر:۔
کہہ رہا تھا ہار پر یہ اک وزیرارجمند یہ کبھی سوچانہ تھاجیناگراں ہوجائے گا ایک مدّت سے جو ہم پر مہرباں تھاآسماں دیکھتے ہی دیکھتے نامہرباں ہوجا ئے گا
مگراِس بات سے قطع نظر افسوس ہے کہ میری قوم نے گیارہ مئی کو سیاستدانوں کے جذباتی نعروں میں بہہ کر ایک بار پھر وہی غلطی کرکے خود کو زندہ درگورکرلیاجیسی یہ 2008کے انتخابات کے بعدسے آج تک ہوتی چلی آرہی ہے۔یعنی گیارہ مئی 2013کے انتخابات کے بعد بھی میری قوم کی قسمت نہیں بدلی سکے گی اور یہ مزیدپانچ سالوں تک کہیں کٹتی مرتی توکہیںزندہ درگور ہوتی رہے گی۔