آج کا انسان

Elephant

Elephant

چند لوگ نمائش کے لیے ایک ہاتھی لے گئے۔ اس ہاتھی کو ایک تاریک گھر میں داخل کیا گیا۔ تاکہ اسے بے چراغ کوئی نہ دیکھے۔ چار شوقین رات کو ہاتھی دیکھنے آئے۔ انہیں کہا گیا کہ یہ وقت ہاتھی دیکھنے کے لیے مناسب نہیں۔ انہوں نے اصرار کیا کہ ہم ابھی دیکھیں گے با خدا دیکھ کر ٹلیں گے۔ ہمیں چراغ کی حاجت نہیں۔ جو مانگو لے لو مگر ہاتھی ابھی دکھا دو۔ چنانچہ ان میں سے ایک ہاتھی کے قریب گیا اس کا ہاتھ ہاتھی کی سونڈ سے جا لگا۔ وہ باہر آ کر کہنے لگا کہ ہاتھی نلکے کی طرح گول مخروط اور لمبا ہے۔ وسرا اندر گیا تو اس کا ہاتھ ہاتھی کی ٹانگوں پر پڑا۔ وہ بولا ہاتھی ستون کی طرح ہے۔

تیسرے نے اس کے کانوں کو چھوا اور کہا کہ ہاتھی تو پنکھے اور چھاج کی طرح ہے ہاں کچھ چوڑا اور نرم سا ہے۔ چوتھے کا ہاتھ اس کی پشت پر پڑا تو بولا کہ ہاتھی تو تخت کی مانند ہے۔ اگر ان کے ہاتھ میں شمع ہوتی تو ان میں اختلاف نہ ہوتا۔ دنیا داروں میں جو باہمی اختلاف ہے وہ جہالت کی تاریکی کی وجہ سے ہے اگر وہ نورِ علم سے مستفید ہوں تو نہ لڑیں نہ جھگڑیں۔ کچھ ایسا ہی حال ہم لوگوں کا ہے ہم لوگ بہت سی چیزیں بنا تحقیق کئے اپنی رائے دینے کی بجائے ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں۔

نبی کریمۖ کی ایک بہت پیاری حدیث بھی ہے کہ کوئی بھی بات بنا تحقیق اور تصدیق کے آگے مت پھیلائو مگر صد افسوس آج ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ہر چیز میں اپنی مرضی کی اصطلاح نکالتے ہیں کچھ لوگ سیاست میں آکر سیاست کے ٹھیکیدار بن بیٹھے ہیں جن کو سیاست میں موقع نہ ملا وہ مذہب کے ٹھیکیدار بن بیٹھے غرضیکہ جس کو جہاں جیسے بھی جگہ موقع ملا اُس نے اپنے آپ کو وہی پر فٹ کر لیا اور مستقل قابض ہونے کی کوشش کی اس سلسلے میں یہ بھی بھول بیٹھے کہ جتنی بھی بلندی پر چلے جائیں مگر اللہ سب سے بلند و بالاتر ہے وہ پلک جھپکنے میں جو چاہے کرسکتا ہے خواہ آپ کتنی ہی بلندیوں کو چھو لے لیکن اُس کا صرف ایک اشارہ آپ کو اس بلندی سے پٹخ سکتا ہے۔

انسان فطرتاً لاپروا اور میری ذاتی رائے میں ڈھیٹ قسم کا اور سخت ناشکرا ہے اس میں سب لوگ شامل نہیں میرے ذاتی رائے سے بہت سوں کا اختلاف بجا ہوسکتا ہے لیکن جس قسم کے دور اور جس معاشرتی اور سماجی راوابط سے ہم لوگ گزر رہے ہیں زیادہ تر انسان انتہائی عجیب و غریب قسم کی ایک نئی تخلیق کردہ مخلوق سی بن کر رہ گیا ہے احساسات و جذبات ختم ہوچکے ہیں رحمدلی اور سخاوت اب ڈھونڈے نہیں ملتی۔ ضد اور انا پرستی مکمل غالب آچکی ہے جس بات پر اڑ گئے تو بس کجا مجال کہ اُس بات سے ہٹنا محال بس اپنی منطق اور اپنی دلیل کو ہی صحیح ثابت کرنا مقصود خواہ اس میں کسی کی جان جاتی ہے جائے قصہ مختصر کہ آ ج کل کا انسان اپنی انا کی تسکین کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتا۔

جھوٹ جیسی لعنت تو اب بہت عام سی بات اور زبان زد عام ہے ایک ریڑھی بان سے لیکر سرکاری غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ملازمین ہوں یا وزیر مشیر ہوں جھوٹ ایسے بولتے ہیں جیسے ان سب لوگوں کے فرائض میں شامل ہوںیہ ایک ایسی لعنت کے طور پر ہمارے معاشرے میں رچ بس گیا ہے کہ ہمیں پرواہ ہی نہیں ہم کس قدر گناہوں کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ دنیا داری میں اس قدر الجھ چکے ہیں کہ اپنے نامہ اعمال پر نظر ڈالنے کی نہ تو فرصت رہی اور نہ ضرورت محسوس کی اب تو شاید نہیں یقیناً دل اس قدر مردہ ہوچکے ہیں کہ ضمیر کی ملامت بھی کچھ اثر نہیں کرتی کیونکہ جب دل مردہ ہوجائے تو ضمیر کی موت اپنے آپ ہوجاتی ہے۔

Storage

Storage

ذخیرہ اندوزی ناپ تول میں کمی مجبور کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا ہم لوگوں کا طرہ امتیاز بن چکا ہے باہمی اختلاف مذہبی گروہی و لسانی جھگڑوں میں اس قدر اپھنس چکے ہیں کہ اگر کوئی ہمیں ہماری حدود بتانے کی کوشش کرے اور حق اور نا حق کی تمیز کروانا چاہے گو کہ اُس کی بات کو عقل تسلیم بھی کرلے مگر تب بھی اپنی مفاد پرستی کی بدولت اپنی بات پر ڈٹ جانا اور مخالفت برائے مخالفت شروع کردینا اور ہر طرح سے تفرقہ کو ہوا دینا تاکہ آپس میں جھگڑے پھوٹ پڑے اور پھر ان لاشوں پر کچھ لوگ مذہب کے نام پر اپنی دکان چمکانا شروع کر دیتے ہیں کچھ لوگ سیاسی اور لسانی بنیاد پر کاروبار شروع کردیتے ہیں ۔

فلسفہ قرآن کو سب فراموش کئے بیٹھے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا برحق فرمان ہے کہ ”جس نے ایک جان کو بچایا گویااُس نے ساری انسانیت کو بچایا” مگر یہ کیا ہم تو ایک دوسرے کے خون کے اس قدر پیاسے ہوچکے ہیں کہ جن لوگوں کو نمازجنازہ بھی نہیں یاد اور چھ کلمے بھی پورے نہیں آتے وہ مفتی بن بیٹھے ہیں اور جس کو چاہا قتل کا حکم صادر کردیا اور نام مذہب کا دے دیا ۔یہ سب کیوں اور کس لئے؟صرف اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے ہم نے اپنی مرضی کے اصطلاحیں ایجاد کی ہوئی ہیں جہاں ہمیں آسانی نظر آتی ہے وہی ہم لچک پیدا کرکے اسی راستے پر ہولیتے ہیں ۔

رمضان کے حوالے سے آپ لوگ کسی بھی ٹی وی چینل کو کھول کر دیکھ لے وہ لوگ جو ناچ گانے میں مصروف اور بے حیائی اور بے پردگی کے کلچر کے دلدادہ وہ ہر چینل پر ہمیں اسلام سکھا رہے ہیں ایک اُچھل کود ایک ہنگامہ بپا کیا ہوا ہے شوروغوغا مچایا ہوا ہے اور دین سے نابلد ہونے کی وجہ سے بعض انتہائی اہم اور حساس نوعیت کے معاملات میں اپنی مرضی کی منطقیں اور دلیلیں گھڑنے کی کوششیں کرتے ہیں یہ بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے کہ دین سے ناآشنا لوگ دین کے ٹھیکیدار بن کر بیٹھ جائیں گے۔

اور آج وہ ہی ہو رہا ہے ہمارے جلیل القدر صحابہ کرام کون تھے ہمارے بزرگان دین اور ہمارے اسلاف کی زندگیاں کیسی تھی ان سب ہستیوں کی بارے میں جاننے کے بجائے اور فلسفہ حیات سمجھنے کی بجائے ہم ان پیشہ ور اور ڈیہاڑی بازوں کی خوش گپیوں میںمحو ہوکر اپنی عبادات اور اذکار کو بھی بھول بیٹھے ہیں پہلے ہم دعائیں مانگا کرتے تھے ذکر و اذکار سے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے مگر اب ہم نے اس سے بھی راہ فرار اختیار کرلی ہے دعا جو عبادت کا مغز ہوتی ہے اس کا بھی ذمہ ہم نے ان دین سے ناآشنا فنکاروں کہ ذمہ لگا دیا ہے۔

بس ہم ٹی وی آن کرتے ہیں ہاٹھ اُٹھا کر سکرین کے سامنے بیٹھ جاتے ہیںاور یوں دعا جیسی متبرک چیز سے بھی کوسوں دور ہوگئے ہیں ۔مگر انسان چاہے کچھ بھی کرلے اور جتنی مرضی ہو ہو ہا ہا کار کر لے میں یہ ہوں میں وہ ہوں کا رٹا لگا لے لیکن اُس کی ساری خودپسندی اور تدبریں دھری کی دھری رہ جائے گی جب اس کی طرف سے بگل بج ابٹھے گا ۔

سو وقت ابھی بھی دور نہیں ہے آج بھی ہم لوگ اس حقیقت کو جان کر خواب غفلت سے بیدار ہو جائے تو اللہ کی ذات بڑی غفور و رحیم ہے اُسکا معافی کا در ہر وقت کھلا رہتا ہے رمضان کا بابرکت مہینہ بھی ہے اور بہترین موقع بھی کہ اللہ کے حضور سر جھکا دیں اور اپنی ماضی کی زندگی پر ندامت کے چند آنسو بہا کر نئی زندگی کا آغاز شروع کر سکتے ہیں ۔تو دیر کس بات کی آئو اُس اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوکر توبہ کرلیں قبل از کہ بہت دیر ہوجائے اور واپسی کی کوئی صورت نہ بچے۔

Amjad Qairashi

Amjad Qairashi

تحریر: امجد قریشی