ہم نے عید بھی خوشی سے منا لی اور 14 اگست کو یوم آزادی بھی دھوم دھام سے منا لیا مگر اپنے دلوں میں پروان چڑھنے والی نفرتوں کو ختم نہ کرسکے اور تو اور ہمیں حب الوطنی کا درس دینے والے ہمارے سیاستدان آج تک خود حب الوطنی ظاہر نہ کرسکے اور انکی آپس کی لڑائیوں اور ایک دوسرے سے بڑھ کر بیرون ملک اثاثے بنانے کے مقابلوں نے ہمیں بھی اسی لائن پر لاکھڑا کیا جہاں سے ہماری تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔اور اب ہم اپنی اصل منزل کے مخالف سمت حرص وہوس کی طرف پوری برق رفتاری سے دوڑ رہے ہیں۔
اور اس دوڑ میں ہمارے برسر اقتدار حکمران خواہ وہ کسی بھی دور کے ہوں ہمیشہ پہلے نمبر پر ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا آج کا پاکستان قائد اعظم کے خواب کی بگڑی ہوئی تصویر ہے پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اللہ کا عطا کیا ہوا قیمتی تحفہ ہے لیکن ہم اس تحفے کی قدر نہیں کر سکے قیام پاکستان کے مقاصد کا پورا نہ ہونا بدقسمتی ہے کیونکہ ملک کا ایک عام شہری بھی مہنگائی، غربت، لوڈ شیڈنگ اور غربت کے ہاتھوں دن بدن غریب سے غریب تر ہوتا جارہا ہے۔
اور ہماری حکومتیں ہیں کہ آئے روز مہنگائی کا ایک نیا طوفان کھڑا کرتی رہتی ہیں مگر کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں اب آپ بجلی کو ہی لے لیجیئے جو ہر گھر کی ضرورت ہے جس کے بغیر علم کی روشنی ہماری دہلیز سے اندر نہیں آسکتی وہ بھی اتنی مہنگی ہوچکی ہے کہ غریب انسان ایک بار پھر سے اندھیروں میں گم ہوجائے گا حکومت بجلی مہنگی کرنے کی بجائے اپنے 30 فیصد غیر ترقیاتی اخراجات کم کر کے 300 ارب کی بچت کرے عوام روٹی خریدیں یا بجلی کے بل ادا کریں۔
پاکستان میں پانی سے 60 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے جس کی پیداواری لاگت صرف 2 روپے یونٹ ہے آخر حکومت مہنگی بجلی پر انحصار کم کیوں نہیں کرتی پانی کے بعد کوئلے سے بھی بجلی 6 روپے یونٹ پڑے گی مگر حکومت کو عوام سے ووٹ لینے کے بعد اب ان سے کوئی سروکار نہیں رہا سابقہ حکومت نے 60 مہینوں میں عوام کی جتنی زندگی اجیرن کی تھی موجودہ حکومت نے 60 دنوں میں وہ کام کر دکھایا ہے موجودہ حکمران اگر اس سوچ پر چل رہے ہیں۔
Wheat
کہ اپنے اقتدار کے آخری 6 ماہ میں عوام کو زیادہ سہولتیں دے کر دوبارہ منتخب ہوجائیں گے تو یہ حکومت کی خام خیالی ہے حکمرانوں کو سابقہ حکومت کی شکست سے عبرت پکڑنی چاہیے کیونکہ حکومت کے ابتدائی 2 ماہ میں مہنگائی 25 سے 30 فیصد بڑھ گئی ہے روزگار ختم ہو رہے ہیں اور ملک کا تجارتی خسارہ بھی آئے روز بڑھ رہا ہے بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے گندم، چاول، چینی، کپڑا، دالیں، دودھ گویا کہ خوراک، پہناوا اور زندگی 50 سے 60 فیصد مہنگی ہو گئی ہے۔
غریب آدمی اس بے کسی میں موت کو منہ لگانا آسان سمجھیں گے بے روزگار نوجوان ڈاکے ڈالیں گے افرا تفری بڑھے گی اور ملک کی بنیادیں کھوکھلی ہونگی حکومت کوہماری تجویز ہے کہ وہ بجلی، پانی، گیس، خوراک اور کپڑے کی قیمتیں ہرگز نہ بڑھنے دیں اور اپنے غیر ترقیاتی اخراجات 30 فیصدکم کرکے 300 ارب روپے کی بچت کریں جس سے بجلی کی قیمتیں مستحکم کریں اور غریبوں کو خوراک پر 25 فیصد سبسڈی بھی دیں یہی وجہ ہے۔
اگر ہم اپنے ملک میں بڑھنے والی غربت کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوگئے تو سمجھ لیں کہ 66 سال گزرنے کے باوجود بھی ہم الگ ملک حاصل کرنے کے حقیقی مقاصد حاصل نہیں کر سکے آج بھی غریب کا پاکستان او رہے اور امیر کا پاکستان اور ہے ایٹمی قوت ہونے کے باوجود کشکول اٹھائے پھرتے ہیں دہشت گردی نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔
پشاور سے کراچی تک خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے آخر میں اپنے پڑھنے والوں کو ایک اہم خبر بھی بتاتا چلوں کہ حکومت نے سرکاری اداروں کی نجکاری کیلئے فہرست کی تیاری کا عمل شروع کر دیا 30 ستمبر سے قبل 64 میں سے 34 اداروں کی نجکاری کر لی جائے گی ان میں بینکنگ، پاور سیکٹر اور پیٹرولیم کے شامل ہوں گے جبکہ پی آئی اے، پاکستان ریلوے، سٹیل ملز جیسے بڑے اداروں کی نجکاری سے قبل ان کی تنظیم نو کی جائے گی۔