ہیرو شیما (جیوڈیسک) امریکا نے دنیا میں پہلا ایٹم بم چھ اگست 1945کو ہیرو شیما پر اس وقت گرایا جب جاپان ہتھیار پھینکنے کے قریب ہی تھا۔ تین روز بعد اس نے دوسرا جوہری بم جاپانی شہر ناگا ساکی پر گرایا۔
چھ اگست 1945 کو امریکی فضائیہ کے جنگی طیارے بی۔ 29 بمبار کے ذریعے لٹل بوائے نام کا ایٹم بم جاپانی شہر ہیروشیما پر پھینکا گیا تھا۔ بم پھٹنے کے کچھ ہی دیر میں ایک لاکھ چالیس ہزار کے قریب انسان ہلاک ہو گئے تھے۔
ہر سال کی طرح صبح سوا آٹھ بجے یادگاری مقام پر خاموشی کے ذریعے جوہری بم سے ہلاک ہونے والوں کو یاد کیا گیا۔ آج کی تقریب میں جاپان میں امریکی سفیر کیرولین کینیڈی بھی شریک تھیں۔ یاد رہے کہ 2010 میں پہلی مرتبہ ہیروشیما کے مقام پر ہونے والی تقریب میں امریکا نے باضابطہ طور پر شرکت کی تھی۔
دنیا بھر سے بے شمار ملکوں کے وفود چھ اگست کی تقریب میں شریک ہوتے ہیں۔ ہیروشیما میں چھ اگست اب ایک عالمی ایونٹ بن گیا ہے۔ اس روز خصوصی ریلی کے شرکاء پیس میموریل تک جاتے ہیں اور مرحومین کی یاد میں پھول رکھے جاتے ہیں۔
آج بھی ہر سال کی طرح اس تقریب میں ہزاروں افراد نے شریک ہو کر خاص طور پر جوہری ہتھیار سازی کو مسترد کرنے کے حوالے سے نعرہ بازی کی جبکہ دانشوروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ہیروشیما شہر پر ایٹم بم سے بچ جانے والے بزرگ شہری خاص طور پر تقریب میں توجہ کے طالب رہے۔
اب ایسے افراد کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ ہیرو شیما پر ایٹمی حملے کی یاد تو ہر سال منائی جاتی رہے گی ، لیکن کیا اسے گرانا واقعی ضروری تھا اس سوال کا جواب آج بھی موجود نہیں ، البتہ ان دو ایٹم بموں کو گرا کر امریکا نہ صرف سپر پاور بن کر سامنے آیا بلکہ آج دنیا میں اس نے جو غلبہ حاصل کر رکھا ہے وہ انہی بموں کے بعد دنیا پر بیٹھنے والی اس کی دھاک کے سبب ہے۔