عربی کی مشہور کہاوت ہے کہ دو دوست ایک سفر پر روانہ ہوئے کسی بات پر ایک دوست نے اپنے دوسرے دوست کو تھپڑ رسید کر دیا جس سے دوست نے اس کو کسی طرح کا جواب نہیں دیا باوجود اسکے کہ وہ اس امر کو اپنی زندگی کا بدترین دن تصور کرنے لگا، اپنے غصہ کو جذب کر لیا …اپنے غصہ کو دور کرنے کی غرض سے اس نے ریت کے ٹیلے پر لکھ دیا کہ میرے دوست نے مجھے تھپڑ رسید کیا جس سے میرے دل کو سخت اذیت پہنچی۔
چند قدم آگئے سفر کرنے کے بعد ان کے راستے میں پانی آیا،وہ اں دلدل کی وجہ سے وہی دوست جس کو تھپڑ رسید کیا تھا وہ دلدل میں دھنستا جا رہا تھا تو دوست جس نے کسی بات پر تھپڑ رسید کیاتھا، اپنے دوست کو بچانے کی سر توڑ کوشش کی یہاں تک کہ وہ اپنے دوست کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
مضروب دوست نے اپنے دوست کے ایک ہی سفر میں دو طرح کے معاملے کا مشاہدہ کیا اور اس پر متعجب بھی ہوا اور اس کے اس احسان پر بے حد خوش بھی ہوا کہ اس نے اپنی جان پر کھیل کر اس کی جان بچائی اسی وجہ سے اس نے بڑے پتھرپر دوست کی اس نیکی کو ثبت کر دیا۔اس پر دوست نے استفسار کیا کہ کیا معاملہ ہے جب میں نے تھپڑ رسید کیا تو تم نے ریت پر کچھ لکھا اور اب جب میں نے تمہاری جان بچائی تو اب تم نے پتھر پر لکھ دیا مجھے یہ حکمت سمجھ نہیں آئی۔اس پر دوست نے جواب دیا کہ میں نے ریت کے ٹیلے پر اس لیے لکھا تھا کیوں کہ اس سے مجھے تکلیف تو ہوئی پر میں نے اس کو ریت پر لکھ دیا کہ جب ہوا آئے گئی تو اس کو مٹا دے گئی اور یہ دکھ میرے دل سے بھی مرور زمانہ کے ساتھ اسی طرح مٹ جائے گا۔ جب کہ میں نے پتھر پر تمہارے احسان کو اس لیے محفوظ کر لیا کہ کوئی آندھی یا ہوا اس کو نہیں مٹاسکتی۔اور میں نے آپ کے اس عظیم احسان کو اپنے دل پر ثبت کردیاہے۔اس کہاوت کا درس یہ ہے کہ دوستوں کی اچھائیوں کو زندہ و یادرکھا جانا چاہیے لیکن برائیوں کو اپنے دلوں پر نہ جمنے دیا جائے۔
Education
مذکورہ بالا کہاوت میں روداری و احسان مندی اور اچھائی کو محفوظ و یاد رکھنے کی اہمیت عظیم مثال سے سمجھایا گیا ہے۔اسلام بھی رواداری کی تعلیم اور دوسروں کی اچھائیوں کو یاد رکھنے کی تعلیم دیتا ہے کہ اگر آپ پر کوئی حد سے تجاوز کرے تو بقدر استطاعت اپنے نفس کو ضبط کریںاور اپنے حسن سلوک سے اس پر اپنی برتری ثابت کریں۔اسلام میں رواداری مضبوط قوت و طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”مضبوط و طاقتور وہ نہیں جو بدلہ لینے میں چستی دکھائے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات پر قابو پالے۔
نفسا نفسی کے موجودہ زمانے میں جب ہر ایک دوسرے کے حقوق پر دست درازی کر رہاہے اور اپنا غلبہ و قبضہ کو باور کرانے کے لیے ہر طرح کے جائز و ناجائز طورطریقوں کو اپنے استعمال میں لارہاہے مسلم و مئومن پر لازم ہوتاہے کہ وہ اپنے نفس پر قابوپاتے ہوئے حسن معاملہ اور رواداری کے ذریعہ اپنی بالادستی ثابت کرے اور اپنے دوستوں کی اچھائیوں کو دل پرثبت کرئے۔اسی طرح اپنے پر لازم دوسروں کے حقوق و فرائض کو ذمہ داری کے ساتھ پوراکرئے ،اس نیک امر کا اجر اللہ عزووجل دنیا و آخرت میں عطافرمائیں گئے۔