دین اسلام نے مکمل زندگی گذارنے کے اصول و ضوابط وضاحت و صریح دلائل کے ساتھ بیان کر دیے ہیں۔ اسی طرح اسلام نے انسانیت کو دوسرے انسانوں کے ساتھ بالعموم اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ رواداری کا معاملہ کرنے کی ترغیب دی ہے اسی کو ہم یہ کہتے ہیں کہ رواداری اسلامی فرائض میں سے ایک فریضہ ہے۔ ہر مسلمان کو اس کے اپنانے میں پس وپیش سے کام نہیں لینا چاہیے۔
خاص طور سے جو لوگ دعوت و ارشاد کے میدان میں کام کر رہے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ رواداردی کو بہر صورت اپنی دعوت پیش کرتے وقت بطور ہتھیار استعمال کریں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے حضرت ھود علیہ السلام کا واقعہ نقل کرتے ہوئے ذکر فرمایا ہے کہ ان کی قوم نے ان سے کہا کہ ”ہم دیکھتے ہیں آپ چھوٹوں میں سے ہیں تو جواب میں حضرت ھود علیہ السلام نے فرمایاکہ ”اے میری قوم میں جھوٹوں میں سے نہیں ہوں بلکہ میں رب العالمین کا رسول ہوں”اس آیت میں یہ نکتہ دیاگیا ہے کہ جہلاء کے سب وشتم کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے۔
حضرت ھود علیہ السلام اپنی قوم کی سب و شتم پر متاثر نہیں ہوئے کیوں کہ وہ جو اللہ کی جانب سے بھیجا گیا ہے اس میں اور اس کی قوم میں مہیب فرق مسلم ہے اللہ کے مختار شدہ بندے میں حلم و عفوودرگذر کا عنصر موجود ہوتاہے اس لیے وہ سب و شتم یا برے کلام کا جواب برے انداز میں نہیں دیتا۔
یہ لازم ہے کہ اللہ کا نبی نرمی اور حلم کے ساتھ اللہ کا پیغام اپنی قوم تک پہنچائے چناچہ حضرت ھود علیہ السلام نے فرمایا”میں آپ تک اللہ کا پیغام پہنچاتاہوں اور میں تمہیں امانت داری کے ساتھ نصیحت کرتاہوں”۔بہترین داعی کی صفت یہ ہے کہ وہ ادب و آداب کے ساتھ دعوت منتقل کرتاہے جھکڑے ومخاصمت سے اجتناب اختیار کرتا ہے۔
حقیقت میںدعوت دینے والے اور جس کو دعوت دی جارہی ہے ان کے مابین تعلق و علاقہ قائم کرناضروری ہے اس لیے وہ عقل ودانش سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ برائی کا بدلہ برائی سے دیکر دعوت کے کام کو مکمل کیا جاسکے۔نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین کوتمام تر دعوتی اسلوب کی دعوت وتعلیم دی ہے۔ایک موقع پر ایک اعرابی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے معاونت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو کچھ مال عطاکیا، اس کے بعد اس سے پوچھا کہ کیا کافی و بہترہے تمھارے لیے ؟تو جواب میں اس نے کہا کہ نہیں یہ بہتر نہیں میرے لیے !!اس پر صحابہ نے غضب کا اظہار کرتے ہوئے اس کو اس گستاخی پر سبق دینے کی ٹھانی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا اور اس اعرابی کو اپنے گھر لے کر گئے اور کچھ اور مال عطا کیا تو اس پر سوال کیا کہ اب بہتر ہے۔
Hazrat Muhammad PBUH
اس پر اعرابی نے جواب میں فرمایا کہ جی ہاں اللہ آپ کو اور آپ کے اہل کو بہت جزا ئے خیر عطافرمائے!!!اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اعرابی سے فرمایا کہ جو تم نے پہلے کلام کیا اس پر صحابہ کے دلوں میں کدورت بیٹھ گئی ہے تم سے متعلق لازم ہے کہ جو کلام ابھی تم نے کیا یہی ان کے سامنے کر دو تاکہ ان کے دلوں میں سے تیرے متعلق جو کچھ ہے دور ہوجائے؟تو اس پر اعرابی نے جواب دیا جی ہاں!!دوسرے دن وہ اعرابی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوا۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو تعارف کرایا کہ یہ شخص گذشتہ روز آیا تھا اور مدد طلب کی ہم نے اس کو عطاکیا اور اس نے دعادی !!اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعرابی سے استفسار کیا کہ ایسے ہے؟؟اس نے جواب میں جواب دیاجی ہاں اللہ آپ کو اور آپ کے اہل کو بہت جزا ئے خیر عطافرمائے۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اور اس اعرابی کی مثال اس آدمی کی ہے جس کی اوٹنی بھاگ جائے اور لوگ اس کوپکڑنے کے لیے اس (اوٹنی)کا پیچھاکریں اور وہ اوٹنی ڈر و خوف کے سبب مزید تیز بھاگے ،اور ایسے میں وہ اوٹنی کامالک لوگوں کو بلاکر کہتا ہے کہ آپ مجھے اور میری اوٹنی کو چھوڑ دو(آپ کے مدد کرنے کا شکریہ)، میں اس کا دوست و مالک ہوں ،میں اس کو تم سے بہتر جانتا ہوں،تو وہ اوٹنی کی جانب متوجہ ہوتاہے اس کو ہاتھوں سے اشارہ کرتاہے تو وہ قریب آجاتی ہے اور وہ اس کو پکڑ کرپیار کر کے بیٹھالیتاہے اور پھر اس پر سوار ہو جاتا ہے۔
اگر میں آپ کو چھوڑ دیتا اس پر جو اس نے کہا میرے سامنے تم اس کو سزا دیتے تو وہ جہنم میں داخل ہوجاتا۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت رحمت والے نبی ہیں کہ جنہوں نے اس سے اعرابی سے حسن سلوک کا معاملہ کیا اگر صحابہ اس پر جبر کرتے اور وہ ضد و عناد میں ڈٹ جاتااپنی بات پر تو لازما وہ جہنم میں داخل کیاجاتا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اعرابی کو اپنی غلطی کے ازالہ کا موقع فراہم کیا یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت وشفقت کا اثر ہے۔اللہ کے نبی کی رحمت کے سبب اعرابی ہدایت سے سرفراز ہوااور شیطان کو سازش میں ناکامی پرذلت کا سامنا کرنا پڑامسلمانوں کو سادہ لوح مسلم بھائی میسر آ گیا۔
اس لیے دین کی دعوت وارشاد سے منسلک افراد جن کا کام بہت بڑاو عظیم ہے دعوت دینے کے طریقہ میں ان پر لازم ہے کہ وہ رحیم ہوں اور لوگوں کو اپنی جانب مانوس ومتوجہ کریں اس امر پر صرف بہتر سلوک کے اعتبار سے نہیں عمل کرنا بلکہ یہ ایک لازمی فریضہ ہے۔ آج کے تمام داعیوں پر لازم ہے کہ وہ رواداری کو اپنا شعار و امتیاز بنائیں اور کامیابی اسی راستہ سے ہی ممکن ہے۔
Khalid Fawad
تحریر:ڈاکٹر خالد فواد الازہری استاد جامعة الازہر (مصر) حال استاد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد 03135265617