تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم گزشتہ دِنوں جس طرح سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئرنے بارہ سال بعد عراق جنگ پر اُس وقت معافی مانگ کر دنیابھر کے اِنسانوں کی پریشانیوں میں اضافہ کردیاجب ایک امریکی چینل سے انٹرویو کے دوران مسٹرٹونی سے پوچھاگیاکہ ” کیا عراق جنگ ہی شدت پسندتنظیم دولت اسلامیہ کے وجودکا باعث بنی ہے؟ تو تب اپنی پیشانی پرآئے پسینے اور اپنے دل کی بے قابو ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالتے ہوئے سابق برطانوی وزیراعظم (اِس موقعے پر میں اِنہیں اِس صدی کا سب سے نالائق اور بینا ہو کر بھی نابینا اِنسان خیال کرتاہوں )ٹونی بلیئرنے جواب دیاکہ” میں سمجھتاہوں کہ اِس بات میں کسی حدتک صداقت کا عنصرموجود ہے“وہ کہتے ہیں کہ ” عراق پر چڑھائی نے داعش کی تشکیل کے لئے پوری طرح سے راستہ ہموارکرنے میں ضرورت سے کہیں زیادہ ہی کرداراداکیا ہے “ پھر ٹونی نے پچھتاوے ہوئے لہجے اور ندامت بھری آواز کے ساتھ ” عراق پر امریکی اتحاد کے حملے کے بارہ سال بعد باقاعدہ معافی مانگ لی“ اور برملااِس بات کا بھی اظہارکیاکہ ” عراق پرحملہ ایک جنگی جرم تھا“۔
جبکہ اپنے اِسی انٹرویو میں ٹونی نے اِس بات کا بھی اعتراف کیاکہ ” وہ امریکی صدرجارج بش کے ہمراہ عراق جنگ کا حصہ بنے جس کا اِنہیں ہمیشہ افسوس رہے گا“ ایسا لگاکہ جیسے ٹونی یہ کہناچاہ رہے ہوں کہ بش کے ساتھ مل کر عراق پر جنگی حملہ ایک ایساجرم ہے جِسے عراقی اورعالمِ اِنسانیت تاقیامت سزادے بھی تو ہم پر لگے اِس جنگی جرم کا ازالہ نہیںکیاجاسکتاہے،ٹونی بلیئرکا یہ بھی اعترافی طورپر کہنا اپنے پیچھے بہت سے سوالیہ نشانات چھوڑگیاہے کہ”عراق کے حوالے سے جو انٹیلی جنس معلومات دی گئی تھیں وہ غلط تھیں اور اُنہیںآج اِس بات پر بھی بہت افسوس ہے کہ عراق پر حملے اور وہاں صدام حُسین کی حکومت ختم کرنے کی منصوبہ بندی میں بے شمار غلطیاںہوئیںہیں“ جس پرمیں معذرت خواہ ہوں“۔
اگرچہ آج عراق پر دیدہ دانستہ کئے جانے والے جنگی جرم پر ٹونی بلیئرنے تو معافی مانگ لی ہے جو اُس وقت بینابن کر بھی عراق کے معاملے پر نابیناہوگئے تھے جواُس وقت کے امریکی صدرجارج بش کے عراق سے وابستہ سیاسی و مادی مفادات کے حصول کے لئے عراق کی تباہی میں امریکا کا ساتھ دے کر اندھے بن گئے تھے مگر آج جب بارہ سال بعد ٹونی کو اُن کے ضمیرنے جھنجھوڑاتو ٹونی بلیئرنے اُس حق و سچ کا پردہ چاک کردیاآج جو عراق کی تباہی کے بارہ سال بعد دنیاکے سامنے ہے دنیاکے سامنے ہے۔
America
سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر جب امریکی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے اور عراق پر حملے اور جنگی جرم کی باتیں کرتے ہوئے معافی مانگ رہے تھے تو اِنہیں دیکھ کر راقم الحرف کو ایسالگاکہ جیسے یہ دنیاکے سامنے امریکی مکاریوں اور چالاکیوں کا بھی پردہ چاک کررہے ہیں اور دنیاکو یہ باورکرناچاہ رہے ہیں کہ اَب آئندہ دنیا کا کوئی بھی مُلک کسی بھی ریاست کے خلاف امریکی انٹیلی جنس کی بنیاد پر حملے کے لئے امریکی اتحادی بن کر عراق جیسے کسی جنگی جرم کا ذمہ دارخود کو نہ ٹھیرائے اور نہ ہی امریکی مفادات کی جنگ کا حصہ بن کر کسی مُلک پر حملے میں ملوث ہو۔
آج بھی اگر دنیاکے جو ممالک کسی ملک پر حملے کے لئے امریکی اتحادی ہوکر عرا ق جیسے کسی ایسے جنگی جرم کے مرتکب ہونے والے ہیں تو وہ پہلے اُن تمام حقائق کا اچھی طرح سے جائزہ لے لیں جو امریکانے اِن کے سامنے پیش کئے ہیں اورجنہیں امریکانے اپناہم خیال بناکر اتحادی فوج میں شامل کیاہے اگروی انٹیلی جنس حائق اور صداقت پر مبنی نہیں ہیں توآج اُن کی طرح پچھتانے اور کفِ افسوس کے ساتھ دنیااور اپنے ضمیرکی عدالت میں معافی مانگنے سے یہ اچھاہے کہ امریکی اتحادی فوج کا نابینابن کر حصہ نہ بناجائے اور کسی مُلک کی سا لمیت اور بقاءکو ستیاناس نہ کیاجائے۔
اَب جبکہ ٹونی بلیئرنے امریکاکے ساتھ مل کر عراق پر حملے اور جنگی جرم پر معافی مانگ لی ہے توکیا ٹونی کی یہ معافی عراق میںمرنے والوں کو زندہ کرسکتی ہے..؟؟یا یہ کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی جانب سے عراق میں صدام حکومت کے خاتمے کے لئے کئے جانے والے جنگی جرم پربارہ سال بعد معافی مانگنے کی حقیقت اپنی جگہ مگر اِس سے انکار نہیں ہے کہ آج جس طرح ٹونی کو اپنی غلطی اور آنکھیں رکھ کر خود کو نابینا بننے کا احساس ہواہے کیا اِسی طرح اُس دن کا بھی دنیاانتظارکرے کہ جب امریکی حکمران اور جارج بش کی نسلیں بھی اِس کا برملا اعتراف کریں گیں کہ عراق پر حملے اور جنگی جرم پر اِن سے غلطیاں ہوئیں ہیں یہ بھی ایک نہ ایک دن ضرورمعافی مانگےںگے۔
Apology
اور اَب اگر امریکا خدانخواستہ دنیاکے پھر کسی اسلامی یاکہنے کو کسی غیر اسلامی مُلک پر اپنی غلط انٹیلی جنس کی بنیاد پر اپنے اتحادیو ں کے ہمراہ حملے کا منصوبہ رکھتاہے تو امریکا اور اِس کے اتحادیوں کو ایساکرنے سے پہلے ضرور سوچنا ہوگا کہ یہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں….؟؟اور اِس سے اِنہیں بظاہر تو فائدہ ہو گا مگر آنے والی نسلیں اِنہیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گے اور وہ اِنہیں ہمیشہ جنگی جرائم کے دلدادہ طورپر یاد رکھ کر اِن پر جوتوں اور گندگی وغلاظت کے ہار پہناتی رہیں گیں جیسے کہ آج ٹونی بلیئرنے عراق پر حملے اور جنگی جرم کے حوالے سے معافی مانگ کر امریکی چہرہ بے نقاب کردیاہے۔
مجھے اُمید ہے کہ آپ بھی میری اِس بات سے متفق ہوں گے کہ آج کے اِس جدید اور سائنسی مگر پُرآشوب دورمیں کہیں کہیں چھپے اور رینگتے ہوئے انسانی اقدارمیں سے اِنسانیت کو ڈھونڈنکالنے اور اِس سے رہنمائی حاصل کرکے نسلِ انسانی کی بقاءو سا لمیت اور عالمِ انسانیت کو پروان چڑھا نے کی اشد ضرورت ہے اِس کے بغیراِس دنیا میں نسلِ اِنسانی کا وجود خطرے سے ہی دوچاررہے گااور دنیامیں ہر بُراکام پھیلتارہے گاجو عالمِ اِنسانیت کو ایک نہ ایک دن نِگل لے گااور دنیا قصہ پارینہ بن جائے گی۔
لگتاہے کہ جیسے میری دنیا اور میرے دیس کے سارے(اُوپر یعنی حکمرانوں سے لے کر نیچے عام آدمی تک سب ہی)بینا، نا بینا بن کر اپنے اپنے حصے کی بُرائی کو عام کرنے میں مصروفِ عمل ہیں اور سارے نابینا ، بینابن کر بھی دنیااور میرے مُلک کو ٹھیک کرنے کے لئے کچھ بھی اچھانہیں کرسکتے ہیں گئے ہیں۔ کیوں کہ آج میری دنیا اورمیرے مُلک میں نہ کسی آنکھ والے کو اپنے کئے ہوئے بُرے اعمالوں اور بُرے کاموں پر پچھتاواہے اور نہ ہی کسی نے کبھی(اپنی حکمرانی اوردورانِ فعلِ شنیع ) اِس کا اقرارکیاہے کہ اِس سے دانستہ ایسے فعلِ سرزدہوئے ہیں جن پر اِسے ندامت اور افسوس ہے( یعنی یہ کہ سب میری دنیااور میرے مُلک میں ہر وہ بُرائی اور بُرے کاموں میں ایسے مگن ہیں جیسے کہ ایساکرنااِن سب کا ذاتی ، پیدائشی اور معاشی و معاشرتی حق ہے گوکہ اِسے کاموں میں مگن وہ سب کہ سب لو گ اور افراد کا ٹولہ بینابن کر بھی نابیناہوگیاہے۔
Immoral
جو اپنے ہر غیراِنسانی غیراخلاقی اور غیردینی فعلِ شنیع کو اپناحق اور سچ سمجھ کر کر رہا ہے ایسے ہی کاموں میں غرق ایسے ہی لوگ تو ہیں جو اچھی بھلی ایمانی بصیرت رکھ کر بھی ایمانی اور حقیقی آنکھ سے اپنے عیبوں کو نہیں دیکھ کر اندھے بن گئے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف میری دنیا اور میرے مُلک میں ایسے بھی( لوگوں پر مشتمل اور طبقے اور ٹولے) موجود ہیں جواپنے ماتھے کے نیچے لگی دوآنکھوں میں اِن لوگوں کی طرح روشنی تو رکھتے ہیں مگراُن بھٹکے ہوئے ڈھیٹ لوگوں نے اِنہیں بھی مصالحتاََ نابینا بناکررکھ دیاہے۔
یوں دنیااور میرے دیس کے یہ غریب اور کمزورلوگ اپنے ایمان اور دل کی روشنی سے ایسے لوگوں کی بُرائیاں ضرور دیکھ رہے ہیں جو اپنی حقیقی آنکھ اور اپنے ایمان اور مذہب کی تعلیمات کی روشنی ہونے کاباوجود بھی دیدہ ودانستہ ڈھیٹ قسم کے نابینا بن کر خود کو افضل واعلیٰ سمجھتے ہیں اور اِس ہی خوش فہمی میں اپنے ہر بُرے اور بداعمال کو صحیح اور درست گردان کر وہ سب کچھ کئے جارہے ہیں جو کہ دراصل غلط اور گمراہ کُن ہے۔
مگر افسوس ہے کہ وہ اپنے کئے پر نہ توندامت محسوس کررہے ہیں اور نہ ہی اِنہیں کسی قسم کا کوئی پچھتاواہے اور جو اچھے اور ایمانی طاقت والے لوگ ہیں وہ بھی اپنی ایمانی اور روحانی کرشمہ سازیوں کے سُوتِ رکھ کر بھی نابیناسے ہوگئے ہیں یعنی کہ یہ نابیناہوکربھی بیناہیں مگر پھر بھی بھٹکے ہوو ¿ں کو راہ راست اور نیکی کے راستے پر لانے کے لئے کچھ نہیں کرپارہے ہیں جیسے یہ بھی روحانی طور پر فعلِ شنیع کرنے والوں کے سامنے بے بس اور لاچار سے بن کر رہ گئے ہیں اِن اچھے لوگوں کایہ عمل بھی دنیااور اِنسانیت کی تباہی کا ذمہ دارہے جو اچھائی کی طاقت رکھ کر بھی برائی اور گمراہی پھیلانے والوں کے سامنے گھٹنے ٹیکے پڑے ہیں۔