جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) رواں برس مختلف کاروباری اداروں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ہونے والی جرمن خواتین کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یکم ستمبر تک ایگزیکٹیو عہدوں پر مزید دو درجن سے زائد خواتین براجمان ہو چکی تھیں۔
ایک غیر منافع بخش تنظیم آل برائٹ فاؤنڈیشن نے ایک سروے مکمل کرنے کے بعد جو رپورٹ مرتب کی ہے، اس کے مطابق رواں برس کے دوران اب تک پچیس خواتین مختلف کاروباری کمپنیوں میں ایگزیکٹیو عہدے سنبھال چکی ہیں۔ ان خواتین کا تعلق ایسی بڑی کمپنیوں سے ہے، جو فرینکفرٹ کے بازارِ حصص میں رجسٹرڈ ہیں اور بزنس کمیونٹی میں نمایاں پوزیشن رکھتی ہیں۔
آل برائٹ فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں رواں برس کاروباری اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر خواتین کی تعیناتی کی شرح میں 3.3 فیصد ضافہ ہوا اور یہ مجموعی شرح 13.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ترانوے خواتین مختلف اداروں کے انتظامی بورڈز کا حصہ بھی بنیں۔ اس اضافے کو غیر معمولی قرار دیا گیا ہے۔
بظاہر یہ تعداد اب بھی بہت کم خیال کی جاتی ہے کیونکہ اعلیٰ عہدوں پر چھ سو تین مرد براجمان ہیں۔ اس وقت بھی نصف سے زائد جرمن کمپنیوں کے انتظامی بورڈز میں کوئی خاتون موجود نہیں۔
خواتین کو ایگزیکٹیو عہدوں پر فائز کرنے یا انہیں انتظامی بورڈز کا حصہ بنانے میں جرمنی کئی دیگر ترقی یافتہ اقوام سے پیچھے ہے۔ مثال کے طور پر امریکا کی تیس اعلیٰ ترین کمپنیوں میں خواتین ایگزیکٹیوز کی تعداد اکتیس فیصد سے زائد ہے۔ برطانیہ دوسرے نمبر پر ہے اور وہاں انتظامی اور ایگزیکٹیو منصبوں پر خواتین کی شرح 27.4 فیصد ہے۔
آل برائٹ فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ویبکے آنکرزن کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو ایک دوسرے کے پیچھے چھپنے کی ضرورت نہیں بلکہ عملی اقدامات درکار ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کمپنیوں کو اس تناظر میں پرکھا جائے گا کہ آیا ان میں کوئی حقیقی تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ اس وقت مغربہ دنیا کے صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی کاروباری کمپنیوں کے انتظامی بورڈز میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے کو وقت کی ضرورت قرار دیا جا رہا ہے۔
ایک حالیہ قانون سازی کے بعد وہ کمپنیاں جن کے ملازمین کی تعداد دو ہزار یا اس سے بھی زائد ہے، ان کے گورننگ بورڈز میں کم از کم ایک خاتون کی بطور بورڈ ممبر تقرری لازمی ہے۔،
اسی طرح جن کمپنیوں کے گورننگ بورڈز میں بظاہر کسی خاتون رکن کی ضرورت نہ ہو، ان کمپنیوں کے اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے نگران حکومتی اتھارٹی کو قابل قبول وجوہات پیش کرنا بھی اب قانوناﹰ لازمی ہے۔