تحریر: پیر توقیر رمضان ایک مشہور قول جو ہم اکثرسنا کرتے ہیں کہ اپنے وقتی طور پر کے فائدے کو اپنے مستقل فائدہ پر قربان کر دینا چاہیے لیکن شاید ہم اس کو صرف سننے کی حد تک ہی محدود رکھتے ہیں ناجانے ہم اس پر کیوں عمل نہیں کرتے اس پر عمل کرنے سے ہمیں ناقابل بیان مفاد حاصل ہوں یہ معمولی کہی او ر سنی جانے والی بات کا بہت بڑا جو صرف سمجھنے والوں کو ہی سمجھ آتا ہے کیا ہم نے کبھی اس پر غور کیا ہے اس پر غور کرنے سے ہمیں بہت بڑی نصیحت ملتی ہے اس کا مطلب ہے اگر ہمیں کوئی چیز وقتی طور پر ملتی ہے اور کوئی مستقل ملتی ہے تو ہمیں وقتی طور پر ملنے والی چیز کو مستقل پر قربا ن کر دینا چاہیے۔
اس میں چھپا ہوا راز یہ ہے دنیا کی زندگی عارضی ہے یہ ہر کسی کو پتہ ہے اور آخرت کی زندگی مستقل ہے لیکن اسکے باوجود بھی ہم اپنی عارضی زندگی کے لیے بہت سی آسائشیں بناتے ہیں کیا ہم نے کچھ اپنی مستقل زندگی(آخرت) کے لیے بھی کچھ بنا یا ہے۔ ہم تو دنیاوی زندگی کے لیے آسائشیں اس طرح بناتے ہیں جیسے ہم نے مستقل یہیں رہنا ہے لیکن اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ یہاں ہم عارضی طور پر ہے ہم پھر بھی اپنی دنیا کو بہتر سے بناتے ہیں ہمیں چاہیے کہ اپنی آخرت کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنائیں۔
King and Poor
تاکہ ہم آخرت میں اس دنیا کے خالق کو جواب دے سکیں کہ اب نے دنیا میں کیا بنایا ہے ۔ ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ شکار کرنے نکلتا ہے تو جنگل میں ایک بزرگ ہوتا ہے جس کا حال بہت برا ہوتا ہے بادشاہ بزرگ سے ملتا ہے اور کہتا ہے کہ تم جنگل میں کیوں رہتے ہو تم نے اپنا حال ایسا کیوں بنا رکھا ہے تو فقیر کیا خوب جواب دیتا ہے میں نے اس دنیا میں کچھ نہیں بنایا تو بادشاہ اس کا مذاق بناتے ہوئے کہتا ہے کہ کوئی تم سے بھی زیادہ بے وقوف ہے جس نے اپنی ساری زندگی بے حالی میں گزاردی تو بادشاہ اس کو ایک چھڑی دیتا ہے اور کہتا ہے جب کوئی اپنے سے زیادہ پاغل دیکھو اس کو دے دینا۔
اسی طرح دن گزرتے رہے ہوتے ہیں تو ایک دن بادشاہ کو حالت بہت خراب ہو تی ہے تو بزرگ کو معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ اپنے زندگی کے آخری مراحل میں داخل ہو گیا تو بزرگ نکلتا ہے اور بادشاہ کے شاہی قلعے میں جا پہنچتا تو بادشاہ سے ملتا ہے تو بادشاہ سے پوچھتا ہے کیا حال ہے تو بادشاہ بتاتا ہے کہ میں اس دنیا سے کوچ کرنیوالا ہوں تو بزرگ آدمی بادشاہ سے سوال کر تا ہے بادشاہ تم میں اس دنیا میں تو بہت کچھ بنایا لیا ہے لیکن کچھ اپنی آخرت کی زندگی کے لیے بھی بنا یا ہے تو اس وقت بادشاہ کو اپنا اس دنیا میں آنے کا مقصد ذہن میں آتا ہے تو بے چارہ بہت پچھتا تا ہے تو بزرگ آدمی بادشاہ کی دی ہوئی چھڑی اسی وقت نکالتا ہے اور کہتا ہے یہ لو اپنی چھڑی مجھے تم مجھ سے زیادہ بے وقوف لگتے ہو اس لیے میں نے آپ کو دے دی ۔اس قصہ سے ہمیں سبق سیکھ کر اپنا اس دار فانی میں آنے کا مقصد جان لینا چاہیے کہیں ہمار ا حال بھی اس بادشاہ جیسا نہ ہو ا ہم دنیا میں رنگینیوں میں کھو کر اس دنیا میں آنے کا مقصد بھول جاتے ہیں جیسے بادشاہ کے ساتھ ہوا تھا اور اس کو تب یاد آیا جب وہ زندگی کے آخری مراحل میں داخل ہو گیا۔