اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان کے ساتھ طورخم کی سرحدی گزرگاہ کو چوبیس گھنٹے کھلا رکھنے کے توسیعی منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کردیا ہے۔ طورخم بارڈر کے توسیعی منصوبے پر تقریباﹰ سولہ ارب روپے کی لاگت آئی۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین آمد و رفت کے لیے سب سے زیادہ طورخم کا راستہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ سال 2012ء تک طورخم کے راستے پاکستان اور افغانستان کے مابین ڈھائی ارب ڈالر مالیت کی سالانہ تجارت ہوتی تھی تاہم 2015ء کے بعد سے اس میں کمی دیکھنے میں آئی تھی اور اس تجارت کا سالانہ حجم محض صفر اعشاریہ چار ارب ڈالر رہ گیا تھا۔
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے واقعات میں 4271 افراد ہلاک ہوئے جب کہ سن 2016 میں یہ تعداد قریب 10 ہزار تھی۔ داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں 52 فیصد کمی ہوئی۔ اس کے باوجود عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل چودہ برس سے سر فہرست رہا۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس سے کم ہو کر 9.75 رہا۔
سال رواں کے وسط میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کے مابین ہونے والی ایک ملاقات میں دونوں ممالک کے مابین تجارت کو فروغ دینے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے ایک ورکنگ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
اسی کمیٹی کی سفارشات پر مختلف اقدامات کیے گئے۔ پاکستان نے طورخم بارڈر پر مزید سہولیات فراہم کیں اور آج بدھ 18 ستمبر کو اس توسیعی منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کر کے اس سرحدی گزرگاہ کو دن رات کھلا رکھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان اور صوبائی گورنر شاہ فرمان سمیت سرکردہ پاکستانی اہلکاروں کے علاوہ افغان حکومت کے اعلیٰ نمائندے اور سرکاری عہدیدار بھی موجود تھے۔
اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا، ”ہماری کوشش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ افغانستان میں بدامنی کے اثرات براہ راست پاکستان پر مرتب ہوتے ہیں۔ ہندوکش کی اس ریاست میں امن وسطی ایشیائی ممالک سمیت پورے خطے کے لیے اہم ہے۔ ہم نے افغانستان میں قیام امن کے لیے بھر پور کوششیں کی ہیں، یہاں تک کہ افغان طالبان کو امریکا کے ساتھ قطر میں مذاکرات کی میز پر بٹھایا۔ اس کے علاوہ یہ بات امریکی حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان نے ان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔‘‘
وزیر اعظم عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے غیر مشروط طور پر افغانستان میں قیام امن کی کوششیں کی ہیں اور طالبان اور امریکا کو ون ٹو ون ساتھ بٹھانے کا موقف اختیار کیا، ”اسی لیے تو ہمیں بات چیت میں ڈیڈ لاک کا پتہ نہیں چلا۔‘‘ عمران خان نے کہا کہ ان کی آئندہ پیر کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک ملاقات طے ہے، جس میں وہ یہی کہیں گے، ”چار دہائیوں سے حالت جنگ میں رہنے والے افغانوں کا حق بنتا ہے کہ ان کے ملک میں بھی امن قائم ہو۔‘‘
پاکستانی سربراہ حکومت کا کہنا تھا کہ امریکا اور طالبان کے مابین امن معاہدے کے بعد ان کا ارادہ ہے کہ وہ طالبان اور افغان حکومت کے مابین بھی مذاکرات شروع کروانے کی کوشش کریں گے۔ عمران خان نے کہا کہ ان کے خیال میں اگر افغان طالبان آئندہ قومی الیکشن میں شامل نہ ہوئے، تو اس کے انتہائی خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔ انہوں نے مزید کہا، ”پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت بڑھے گی، تو دونوں ممالک کے عوام کو روزگار کے نئے مواقع ملیں گے اور بالخصوص دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں عوام کی مشکلات کسی حد تک کم ہو سکیں گی۔‘‘
ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر سے متصل طورخم کی پاک افغان سرحد کو روزانہ آمد و رفت اور تجارت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں چودہ لاکھ سے زائد رجسٹرڈ اور تقریباﹰ اتنی ہی تعداد میں غیر رجسٹرڈ افغان شہری بھی رہائش پذیر ہیں۔
افغانستان میں بدامنی کی حالیہ لہر کی وجہ سے ایک بار پھر افغان مہاجرین کی ان کے وطن واپسی کا پروگرام سست روی کا شکار ہو چکا ہے۔
طورخم بارڈر کے توسیعی منصوبے کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کا کہنا تھا کہ طورخم بارڈر کو چوبیس گھنٹے کھلا رکھنے سے دونوں ممالک کے مابین نہ صرف تجارت بڑھے گی بلکہ وسطی ایشیائی ممالک تک تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت میں پاکستانی مصنوعات کی برآمد میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ افغان باشندوں کو علاج معالجے کے لیے پشاور اور اسلام آباد جانے میں بھی آسانی ہو گی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں تعمیر و ترقی کے بڑے منصوبے شروع کیے گئے ہیں، جن سے قبائلی علاقوں کے عوام کے ساتھ ساتھ افغان شہریوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔‘‘
قبل ازیں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور دیگر اعلیٰ حکام نے طورخم بارڈر کے توسیعی منصوبے کی افتتاحی تقریب کے لیے کئے گئے انتظامات اور سکیورٹی صورت حال کا بھی جائزہ لیا تھا۔ اس دوران صوبائی وزیر اطلاعات شوکت علی یوسف زئی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وزیر اعظم عمران خان کے طورخم کے آج کے دورے کے لیے انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔