تحریر : عبدالرزاق طورخم گیٹ کی تعمیر پر افغانستان کے پیٹ میں اٹھنے والے مروڑ نے انتہائی کشیدہ صورتحال اختیار کر لی ہے۔ افغان فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ سے جہاں افغانستان کا بغض کھل کر سامنے آ رہا ہے وہیں افغانستان نے احسان فراموشی کے حوالے سے بھی اک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ پاکستان جس نے افغانستان پر روس کی یلغار کے موقع پر جس انداز میں افغانیوں کی مدد کی اس کی مثال تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ۔پاکستان سے لاکھوں مجاہدین جذبہ ایمانی سے سرشار اپنے سر پر کفن باندھ کر اٖفغانی بھائیوں کی مدد کے لیے افغانستان پہنچ گئے اور ان میں سے ہزاروں کی تعداد میں شہادت کے رتبہ پر بھی فائز ہو گئے۔
دوسری جانب ریاست پاکستان نے بھی افغان مہاجرین کے لیے خندہ پیشانی سے دل کے تمام دروازے کھول دیئے۔ پاکستان نے افغان مہاجرین کا اس والہانہ انداز میں استقبال کیا جیسے یہ ان کا دوسرا گھر ہو ۔افغانیوں سے حسن سلوک کے حوالے سے بھی پاکستان کا کردار مثالی رہا ۔حتیٰ کہ ان کو پاکستان سے اتنا پیار ملا کہ وہ واپس جانے کی راہ ہی بھول گئے ۔لیکن افغانستان یہ سب بھول کر ان دنوں ہندوستان کے اشارے پر اور امریکہ کی پشت پناہی میں پاکستان سے دشمنی کا کردار ادا کر رہا ہے ۔افغان فورسز نے طورخم بارڈر پر جس طرح بلا اشتعال اور اندھا دھند فائرنگ کی ہے اس سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ افغانستان اب مکمل طور پر ہندوستان کی گائیڈ لائن کی پیروی کر رہا ہے ۔مودی کا دورہ افغانستان اور بعدازاں امریکہ یاترا اس بات کی غماز ہے کہ تینوں ممالک مل کر پاکستان کو کمزور کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔طورخم گیٹ کی تعمیر پاکستان کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
Torkham Gate
طورخم بارڈر سے ہزاروں افراد روزانہ کی بنیاد پر آتے جاتے ہیں جس سے پاکستان کی سیکیورٹی پر کاری ضرب لگ رہی ہے۔ اسی تشویش کو بھانپتے ہوے پاک فوج نے سکیورٹی کو مذید مربوط بنانے کے لیے طورخم گیٹ کی تعمیر کا فیصلہ کیا ہے جسے افغان فورسز نے بلا وجہ فائرنگ کر کے تنازعہ کی شکل دے دی ہے ۔طورخم گیٹ اور اسی طرح کے دیگر گیٹ تعمیر کرنا پاکستان کا حق ہے ۔اور بالخصوص جب سے بلوچستان میں جاسوسی نیٹ ورک کا انکشاف ہوا ہے افغانستان سے محتاط رہنا فطری عمل ہے ۔ یاد رہے طورخم بارڈر سے روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں لوگ آزادانہ اور بغیر کسی دستاویز کے آتے جاتے ہیں جس وجہ سے دہشت گردوں کے لیے پاکستان کی حدود میں داخل ہونا قدرے آسان ہے ۔اس خطرے کو بھانپتے ہوے اور پاکستان کی سکیورٹی کو مذید مضبوط بناے کے لیے ہی گیٹ کی تعمیر کی جا رہی تھی کہ افغان فورسز نے بلا سوچے سمجھے پاکستانی جوانوں پر فائرنگ کرکے اک نیا محاذ کھول دیا ہے ۔ افغان فورسز کو اندازہ نہیں کہ وہ کن شیر جوانوں کو للکار رہی ہیں۔
پاک فوج کا ہر سپاہی بہادری ،جوانمردی اور دلیری کی علامت ہے ۔ افغانستان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ تمہار ی کرتوتیں محض اس لیے برداشت کی جا رہی ہیں کہ تم بھی کلمہ گو مسلمان ہو ۔ تمہاری اور ہماری دوستی کی اک طویل داستان ہے ۔ ہمارے جوانوں کی قوت برداشت جواب دے گئی اور پاک فوج نے فیصلہ کر لیا تمہیں سبق سکھانے کا ، توتمہیں سر چھپانے کی فرصت بھی نصیب نہ ہو گی ۔تم جو پاکستان کی جاسوسی کر رہے ہو تمہیں خبر ہونی چاہیے کہ پاکستان کے پاس ایسی خفیہ ایجنسیاں موجود ہیں جو قابلیت ،فعالیت اور صلاحیت کے اعتبار سے دنیا بھر میں معروف ہیں ۔ یہ وہ ایجنسیاں ہیں جن کا نام سن کر ہی ہندوستان کی ٹانگیں کانپ جاتی ہیں ۔پاک فوج کے ترجمان لیفٹینٹ جنرل عاصم باجوہ نے کچھ روز پہلے آپریشن ضرب عضب کے بارے دو سالہ رپورٹ جاری کرتے ہوے کہا ہے کہ پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کا معرکہ سر کرتے ہوے دہشت گروں سے 4304 کلومیٹر کا علاقہ خالی کروایا ہے جبکہ اس آپریشن کے دوران 490جوانوں نے جام شہادت نوش فرمایا اور 2013جوان اس مشن میں زخمی ہوے ۔یوں برملا کہا جا سکتا ہے کہ پاک فوج کے جوانوں کی بہادری،دلیری اور شجاعت کے طفیل اور بے پناہ قربانیوں کی بدولت دہشت گردی کے عفریت پر کافی حدتک قابو پا لیا گیا ہے اور جو تھوڑی بہت دہشت گردی باقی ہے اسے بھی جڑ سے ختم کرنے کے لیے پاک فوج دن رات کوشاں ہے۔
Firing at Torkham Border
میری دانست میں پاک فوج کو مکمل معلومات میسر ہیں کہ افغانستان ہندوستان کے بہکاوے میں آ کر پاکستان کا امن برباد کرنے کے مذموم عمل میں ملوث ہے اسی لیے طورخم اور دیگر اہم مقامات پر گیٹس کی تعمیر کا منصوبہ تیزی سے روبہ عمل ہے ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر افغانستا ن پاکستان میں بد امنی پھیلانے میں ملوث نہیں ہے تو پھر اس کے سینے میں ان تعمیرات کا درد کیوں اٹھ رہا ہے اور کیوں اس کی فورسز بے قابو ہوتی جا رہی ہیں ۔ افغان فورسز کی بے چینی اور اضطراب کی روشنی میں یہ نتیجہ بخوبی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے ۔وگرنہ تو ان گیٹس کی تعمیر نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کی سیکیورٹی کے لیے بھی مفید ہے ۔پاک فوج فیصلہ کر چکی ہے کہ اب کسی کی بھی طورخم بارڈر سے بغیر دستاویزات پاکستان آمد نہیں ہو گی جس سے یقینی طور پر پاکستان میں سکیورٹی کے معاملات مذید بہتر ہوں گے ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ سب اقدامات پاک فوج اور حکومت کی باہمی رضامندی سے عمل میں لائے جا رہے ہیں۔عاصم باجوہ نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ چارسدہ حملہ میں ملوث دہشت گردطورخم بارڈر کے راستے کو اختیار کر کے ہی خیبر پختونخواہ میں داخل ہوے تھے جبکہ بڈھ بیر میں دہشت گردی کی مذموم کاروائی کرنے کے لیے بھی دہشت گردوں نے یہی راستہ اپنایا۔
اب وقت کا تقاضا ہے کہ پاک فوج اورحکومت پاکستان یکجا ہو کر اور یکسوئی کے ساتھ ان دشمن عناصر کی سرکوبی کے لیے مربوط و منظم لائحہ عمل طے کریں ۔امریکہ ،بھارت اور افغانستان ایک طے شدہ منصوبے کے تحت پاکستان کی جڑوں کو کمزور کرنے پر کمربستہ ہیں ۔ اگر ہم مودی کی کچھ عرصہ سے جاری سازشوں کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو کڑی سے کڑی ملتی نظر آئے گی کہ کس طرح مودی عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔مودی کی پھرتیوں کا جائزہ لینے پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹتے نظر آئیں گے۔ ایک جانب تو مودی امریکہ کی توجہ اور قربت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے دوسری جانب افغانستان کو پاکستان سے متعلق گمراہ کر چکا ہے ۔ علاوہ ازیں مودی کی سعودی عرب ،قطر اور دیگر خلیجی ممالک کے دوروں کے دوران پذیرائی بھی اس امر کی غماز ہے کہ اس کے تعلقات ان ممالک سے بھی وسعت اختیار کر چکے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں پاکستان کہاں کھڑا ہے ۔ ایک عام فہم انسان کے لیے بھی اندازہ کرنا مشکل امر نہیں ہے ۔بدقسمتی سے پاکستانی حکومت کی خارجہ امور کی جانب عدم توجہ اور بدلتے عالمی حالات کے تناظر میں نا مناسب حکمت عملی کے سبب پاکستان کو مذکورہ مشکلات درپیش ہیں۔وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کو فوری طور پر کسی خیال افروز شخصیت کو خارجہ امور کا قلمدان سونپ دینا چاہیے تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کی بھرپور نمائندگی ہو سکے ۔دوسری جانب میاں صاحب کو پاکستان کے خلاف بھارت ،افغانستان اور امریکہ کی ملی بھگت سے رچائی گئی سازش کی بو بھی سونگھ لینی چاہیے کہ امریکہ بھارت اور افغانستان کے ذریعہ کیا چاہتا ہے ۔ میاں صاحب اگر فوری طور پر ان سازشوں کا سر نہ دبوچا گیا تو پاکستان کو مستقبل میں ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کے خدشات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔