ٹورازم

Tourism

Tourism

تحریر : محمد شعیب تنولی
ٹورازم یعنی سیاحت کسی بھی ملک کی معاشی اور ثقافتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ھے۔ ٹورازم کا پرانا تصور یہ تھا کہ پرفضا قدرتی مقامات کی سیر کی جائے یا پھر اس ملک میں آثار قدیمہ یا مشہور عمارات کا وزٹ کیا جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ٹورازم ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرگیا اور اب یہ مختلف اشکال میں ڈیویلپ ہوچکا ھے۔

مثال کے طور پر سوئیٹزرلینڈ جیسے ممالک ابھی تک لوکیشن کی بنیاد پر ٹورازم کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں آسٹریلیا نے پچھلے 15 سالوں میں ایجوکیشنل ٹورازم پر بہت کام کیا ھے اور ترقی پذیر ممالک کے لاکھوں سٹوڈنٹس کو اپنی یونیوسٹیوں میں آسان پروسیجر کے تحت داخلے دے کر ٹورازم کو فروغ دیا ھے۔ ٹورازم کی ایک اور شکل اب میڈیکل ٹورازم کے نام سے فروغ پارہی ھے جس میں جرمنی اور برطانیہ تو تھے ہی، اب انڈیا نے بھی اس انڈسٹری میں سستے علاج کے طور پر اپنا نام جمانا شروع کیا ھے اور خلیجی ممالک کے بہت سے لوگ اب انڈیا میں سستا علاج کروانے کیلئے جاتے ہیں۔

ایک اور ٹورازم کی شکل شاپنگ ٹورازم کے نام سے مشہور ھے جس میں ٹاپ پر دبئی اور بنکاک آتے ہیں۔ ان شہروں نے بڑے بڑے شاپنگ مالز اور ٹیکس فری برانڈڈ پراڈکٹس کے ذریعے شاپنگ ٹورازم کی بدولت اپنی معیشت کو بہت ترقی دے دی ھے۔ اللہ نے پاکستان کو ناردرن ایریاز کی شکل میں دنیا کے حسین ترین خطوں سے نوازا ھے۔ ہمارا سوات بلاشبہ پاکستان کا سوئیٹزلینڈ ھے۔ لیکن اگر آپ کبھی ان علاقوں کا سفر کرنا چاہیں، خاص کر فیملی اور خواتین کے ساتھ، تو آپ کو کئی بار سوچنا پڑتا ھے۔ ایک تو سفر ناہموار، جگہ جگہ سے سڑکیں ٹوٹی ہوئیں، پھر راستوں میں ناکافی سہولیات۔ ایک خاص مقام سے آگے آپ اپنی گاڑی میں نہیں جاسکتے۔ وہاں پہنچ کر آپ کو اپنی گاڑی پارک کرکے فور وھیلر ہائیر کرنا پڑتی ھے جو ایسے راستے سے گزرتی ھے کہ ہر آن آپ کے منہ سے کلمہ جاری ہوجاتا ھے کہ اب کھائی میں گرے یا سامنے سے آنے والی گاڑی سے ٹکرا گئے۔

Kasur

Kasur

اللہ اللہ کر کے اگر آپ اپنی مطلوبہ منزل پر پہنچ بھی جائیں تو کسی بھی پبلک مقام پر آپ کو ٹوائلٹ کی سہولت نظر نہیں آتی۔ بجائے اس کے کہ آپ مناظر کو انجوائے کریں، آپ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کسی کونے کی تلاش شروع کردیتے ہیں، الغرض، غیرملکی تو درکنار، ایک پاکستانی بھی ایسے مقامات پر اپنی فیملی کے ساتھ جانے کو تیار نہیں ہوتا۔ پچھلے مہینے عیدالفطر کے دن قصور میں تعینات پنجاب کے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کا ایک افسر ناردرن ایریاز میں سیر کیلئے چلا گیا۔ عید کے دن قصور میں بارش ہوگئی جس سے وہ پل ٹوٹ گیا جو حمزہ شہباز کے پولٹری فارم کو جاتا تھا۔

جیسے ہی پولٹری فارم جانے کا راستہ بند ہوا، چیف منسٹر ہاؤس سے چیف سیکرٹری اور پھر متعلقہ سیکرٹری سے ہوتے ہوئے ناردرن ایریاز میں سیر کرتے ہوئے اس افسر کے موبائل کھڑکنا شروع ہوگئے۔ نتیجے کے طور پر اسے غالباً ہیکی کاپٹر کے ذریعے فوراً قصور واپس بلایا گیا اور عید کے تیسرے دن تک وہ پل مرمت ہو کر بالکل ٹھیک ہوچکا تھا۔

جب حکمرانوں کی ترجیحات ٹورازم کی بجائے اپنے بزنس کو ٹھیک کرنا ہو تو ملک کیا خاک ترقی کرے گا؟ اسی طرح ہماری ملٹری نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیز اور کینٹ کے علاقے تو جدید بنیادوں پر ڈیویلپ کرلئے لیکن اپنے 33 سالہ دور حکومت میں سوات، ناران، گلگت کو نظرانداز کئے رکھا۔

Issues

Issues

آج تک میں نے کسی بھی لبرل یا نام نہاد مذہبی طبقے کو ان مسائل کی نشاندہی کرتے نہیں دیکھا، کیونکہ ایسا کرنے سے عوام کے جزبات نہیں بھڑکتے اور وہ اپنا منجن نہیں بیچ سکتے۔ اس لئے یہ لوگ 68 سالوں سے قوم کو صرف لبرل اور مذہبی بحث میں ہی الجھائے ہوئے ہیں اور اپنی پیٹ پوجا جاری رکھے ہیں۔ حکمران طبقہ بشمول سیاستدان، بیوروکریسی اور ڈکٹیٹرز، لبرل اور مذہبی طبقات، سب کے سب حرام خور اور شیطان ہیں۔ جتنا جلد ان کے سحر سے باہر نکل آئیں، ملک اور عوام کیلئے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ ورنہ ہاتھ میں پانی کی بوتل لے کر دریائے سوات کے کنارے کنارے چلتے رہیں اور کوئی کونہ ڈھونڈتے رہیں جہاں آپ “حاجت” سے فراغت پالیں!!!!

تحریر : محمد شعیب تنولی